غازی آباد :٤ اکتوبر کو پرانے غازی آباد ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم نمبر ٣ کے نزدیک ایک نامعلوم شخص کی سر کٹی ہی لاش ملی- یہ لاش ایک مسلمان شخص کی تھی جو ٢٩ ستمبر کو غیر منکشف طریقہ سے ارریہ میں موجود اپنے گھر سے نکلا اور ٢ اکتوبر کو غازی آباد پہنچا- ٦ اکتوبر کو جی آر پی (گورنمنٹ ریلوے پولیس) نے مبینہ طور پر خودکشی کی ہی لاش پاے جانے کے بارے میں گھر والوں کو اطلاع کیا، جسکی شناخت انہوں نے اپنے مشابہ محمّد اشرف (٢٨) علی کے طور پر کی- پوسٹ مورٹم رپورٹ میں موت کی وجہ سر کٹنے کی وجہ سے صدمہ اور خون بہاؤ بتایا گیا- حالانکہ اہل خانہ نے اشرف کی خودکشی کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ موت کے حالات سے انہیں شبہ ہے کہ اسے قتل کیا گیا ہے- موت کے محیط واقعات نے خدشات اور شکوک و شبہات پیدا پیدا کر دئے ہیں جس کی مکمّل تحقیقات کی ضرورت ہے- ارریہ میں اپنے گھر سے نکلنے کے بعد اشرف نے آخری بار ٣٠ اکتوبر کو اپنی والدہ کو فون کر کے مطلع کیا کہ وہ کچھ مہینوں کے لئے جا رہا ہے اور رابطہ میں نہیں رہیگا- اسنے اپنی ماں کو خیال رکھنے کی تاکید کرتے ہوئے فون کاٹ دیا- اپنی ماں سے بات کرتے ہوئے اشرف گہری سانسیں لے رہا تھا- گویا کہ وہ کسی کے دباؤ میں بھاگ رہا ہو- اس نے اپنے تینوں بھائیوں کو بھی اسی طرح کا میسج بھیجا، جو بعد اس سے رابطہ نہ کر سکے- جب اشرف کی سر قلم لاش کو تدفین کے لیے گھر لے جایا گیا تو اہل خانہ نے اس کے سینے کے اوپری دائیں جانب زخموں کے نشانات دیکھے- اس کی پشت پر مہلک ہتھیار سے حملہ کے نشان تھے۔ اس کی کلائیوں پر نشانات بتا رہے تھے کہ اسے رسی سے باندھ کر مارا پیٹا گیا جو قتل کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ٹرین حادثے کی صورت میں، ٹریک پر لاش ملنے کے بعد لوکو پائلٹ حکام کو مطلع کرتا ہے۔ اس معاملے میں پروٹوکول پر عمل نہیں کیا گیا اور پولیس نے جلد بازی میں اسے خودکشی قرار دے دیا۔ وہ بھی زبانی اور بغیر باقاعدہ تحقیقات کے- ١٩ اکتوبر کو اہل خانہ کی باضابطہ شکایت کے باوجود کہ اشرف کی موت مشتبہ حالات میں ہوئی ہے اور یہ ممکنہ قتل معلوم ہوتا ہے، پولیس کی جانب سے ابھی تک ایف آئی آر (فرسٹ انفارمیشن رپورٹ) درج نہیں کی گئی۔ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ ٢ اکتوبر سے ٤ اکتوبر کے درمیان اشرف نے تین سفر کئے جسمیں نئی دہلی سے غازی آباد، غازی آباد سے دہلی اور نئی دہلی سے غازی آباد کا سفر کیا۔ اس نے ٣٠ ستمبر کو کٹیہار سے دہلی تک کا سفر بھی کیا- یکے بعد دیگر یہ دورے اسکی موت کو اور زیادہ مشکوک بناتے ہیں- اشرف نے چونکہ جنرل ٹکٹس لئے تھے جنہیں مقامی کاؤنٹرز سے خریدنا ضروری ہے، سی سی ٹی وی فوٹیج اس کی نقل و حرکت پر روشنی ڈال سکتے جو کہ اہل خانہ کو فراہم نہیں کیا گیا.مکمل اور باضابطہ تفتیش کے فقدان کے ساتھ ساتھ قتل کے مشتبہ سراغ کی لاپرواہی نے سنگین خدشات کو جنم دیا ہے۔ اے پی سی آر حکام سے پرزور مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اس کیس کی مکمل تحقیقات کریں جو پہلی نظر میں قتل معلوم ہوتا ہے اور لواحقین کو انصاف فراہم کیا جانا چاہیے۔