جاوید جمال الدین
گزشتہ لوک سبھا انتخابات کے نتائج نے برسر اقتدار بی جے پی کو بیک فٹ پر پہنچا دیا ہے،لیکن پارٹی لیڈرشپ کے غیر مناسب،کردارکشی کرنے اور قابل اعتراض بیانات کاسلسلہ جاری ہے،چاہے پارلیمنٹ کے ایوانوں میں ہوں یا عام جلسہ و تقریبات ۔ حال میں پونے میں پارٹی ورکرز سے خطاب کرتے ہوئے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے این سی پی کے سربراہ شرد پوار کو ملک کے بدعنوان لوگوں کا ‘سرغنہ’قرار دیتے ہوئے ان پر سخت تنقید کی۔انتخابی مہم کے دوران نریندرمودی انہیں ‘بھٹکتی آتما’ بھی کہہ چکے ہیں،حالانکہ انہوں نے شردپوارکو اپنا سیاسی گرو بھی کہاہے۔اس موقع پرشردپوار کہاں چکنے والے ہیں ،انہوں نے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کو نشانہ بنایااورکہاکہ ‘ تڑی پار کو اپنے گریبان میں جھانک لیناچاہئیے۔انہوں نے میرے خلاف کچھ باتیں کہیں۔ میں انہیں یاد دلاتا ہوں کہ جو شخص آج ملک کا وزیر داخلہ ہے،وہ شخص ہے جس نے گجرات کے قانون کا غلط استعمال کیا۔ اس لیے سپریم کورٹ نے اس کی سرزنش کی اور گجرات سے تڑی پار کردیاتھا۔” دراصل شردپوار نے واضح کردیاکہ “جو لوگ شیشے کے گھر میں رہتے ہیں ،وہ دوسرے کے گھرپرپتھر نہیں پھینکتے ہیں۔”
شردپوارایک ایسی شخصیت کے مالک ہیں جوحالات کا مقابلہ کرنے والارہنماء ہے اورسب کوساتھ لیکرچلتاہے۔معمول سے معمولی ورکر سے قربت رکھنے اور سیاسی سطح پر بہترین انداز میں اپنی بات رکھنے کابھی اُسے فن آتا ہے ۔
شردپوارپربدعنوانی کے متعدد الزامات عائد کیے گئے ہیں اور سیاسی جوڑتوڑ کرنے میں انہیں مہارت حاصل ہے۔ان کا سیاسی کرئیر 1960 کے عشرے سے شروع ہوگیا ،لیکن 1978 میں انہوں نے اپنی ہی کانگریس پارٹی کے وزیراعلی وسنت داداپاٹل کو اقتدار سے بے دخل کرکے نوجوان وزیر اعلیٰ بننے کاشرف حاصل کیا۔پھر راجیو گاندھی کی ایماء پر وہ دوبارہ کانگریس پارٹی میں واپس لوٹ آئے اور چند ماہ بعد انہیں ایک بار پھر وزیراعلی بنادیاگیا۔
واضح رہے کہ 1991میں انتخابی عمل کے دوران راجیو گاندھی کے قتل کے بعد کانگریس کے اقتدار میں آنے کے بعد نرسمہا راؤ نے مہاراشٹر کے مردآہن کہے جانے والے شردچندرپوار کو مرکزی کابینہ وزیر دفاع کی حیثیت سے شامل کرلیا،لیکن 6دسمبر 1992کو بابری مسجد کی شہادت کے بعد ممبئی میں ہونے والے دو دور دسمبر 1992 اور جنوری 1993 کے خونریز فرقہ وارانہ فسادات کے بعد وزیراعظم پی وی نرسمہا راؤ نے انہیں مہاراشٹر میں وزیر اعلیٰ بناکر بھیج دیا دراصل اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے لیے نرسمہا راؤ نے انہیں ممبئی سمیت مہاراشٹر کی حالت مستحکم کرنے کے لیے دوبارہ وزیراعلی کا عہدہ سونپ دیاتھا،کیونکہ ان کی اور ان کے حواریوں کی نظر میں شردپوار ان کے لیے سب سے بڑا خطرہ تھے۔مگر ابھی شردپوار نے عہدہ سنبھالا ہی تھاکہ ہفتے بھر میں ہی ممبئی شہر 12 مارچ 1993 کے سلسلہ وار بم دھماکوں سے دہل گیا۔
ممبئی بم دھماکوں کے بعد مسلم نوجوانوں کی مبینہ گرفتاری کا لامتناعی سلسلہ شروع ہوا،مسلمان اور ان کی لیڈرشپ اور علماء کونسل،ملت بچاؤ جیسی تنظیمیں کچھ عرصے خاموش ہی نہیں بلکہ سہمی رہیں پھر وفود کاسلسلہ منترالیہ اور ورشا (وزیراعلی کی سرکاری رہائش گاہ)شروع ہوگیا،لیکن کوئی حل نہیں نکل سکا۔
ملک کے قدآور لیڈراوراین سی پی رہنماء شرد پوارکے بارے میں ایک بات مشہور ہے کہ ہرایک سیاسی پارٹی میں ان کے دوست ہیں،آنجہانی ملائم سنگھ،فاروق عبداللہ، ممتا بنرجی، ہی نہیں بلکہ بی جے پی لیڈرشپ سے بھی گہری دوستی ہے،جیسا ذکر کیاگیا ہے کہ خود وزیراعظم مودی اپنا سیاسی گرو کہتے ہیں اور مودی کا چیلا،ان پر تنقید کرنے میں اول نمبر ہے ،بلکہ سالگرہ پر پہلا ٹوئیٹ وزیراعظم نریندر مودی ہی کرتے رہے ہیں۔
شردپوار کے بہتر مراسم کھیل کود،صنعت ، سماجی،تعلیمی ہی نہیں بلکہ فلمی دنیا میں بھی ہیں ،جن میں دلیپ کمار اور لتا منگیشکر صف اوّل پررہے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ مرحوم دلیپ کمارنے اپنی خودنوشت میں شردپوارکیساتھ اپنے رشتوں کا خصوصی ذکر کیا ہے،پہلی بار دلیپ کمار نے 1967ء میں ممبئی سے تقریباً 250 کلومیٹر دور بارامتی میں ان کےاسمبلی الیکشن کے لیے انتخابی مہم میں حصہ لیا تھا۔شردپوار پہلے کم عمر ایم ایل اے اور پھر کم عمر وزیراعلی بھی بن گئے تھے۔دراصل شرد پوارنے 1978 میں کانگریس سے بغاوت کی اوروسنت دادا پاٹل کاتختہ پلٹ دیااور مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ بن گئے تھے۔
دلیپ کماراپنی آپ بیتی میں رقم طراز ہیں کہ شردراو (پوار کو اسی انداز میں پکارتے رہے)سے نصف صدی پرانے تعلقات ہیں اور انہوں نے ہی 1980 ء میں ممبئی کا شریف مقرر کیا تھا، (جوکہ ممبئی میں ایک باوقار اوراہم عہدہ تھا) واضح رہے کہ ریاست میں کافی مقبول و مضبوط لیڈر سمجھے جانے والے پوار آج بھی قدآور سیاست داں ہیں۔پونے قیام کے دوران میں نے ان کے قافلے کے ساتھ ضلع کادورہ کیاتھا،یہ دیکھ کر دنگ رہ گیاکہ وہ اپنی پارٹی کے ادنی سے ادنی ورکر کو نام سے جانتے ہیں۔دوسال قبل ای ڈی کے نوٹس پر جب انہوں نے خود ای ڈی کے دفتر جانے کا اعلان کیا تو مہاراشٹر ہی نہیں مرکز کی مودی حکومت کے پاؤں تلے سے زمین کھسک گئی، یہاں تک کہ پولیس کمشنر کو پوار کے گھر جاکر التجا کرنا پڑی کہ وہ ای ڈی دفتر نہ جائیں ،اس سے ان کی مقبولیت کا اندازہ لگایا جاسکتاہے۔
امت شاہ نے شرد پوارکے بارے میں ان کے گڑھ میں برُا بھلا کہاہے ،شاید انہیں ان کی مقبولیت کا اندازہ نہیں ہے۔
امت شاہ کو شردپوار کو ملک میں بدعنوانی کا سب سے بڑا ماسٹر مائنڈ قرا ردینے سے پہلے بی جے پی حکومت کے دس سالہ دور کا جائزہ لینا چاہئیے تھا،الیکٹرول بونڈ میں کس طرح کی بدعنوانی ہوئی ہے ،وہ جگ ظاہر ہے۔اور سپریم کورٹ نے بھی سخت سرزنش کی ہے۔
ستم ظریفی دیکھیے کہ بی جے پی نے اس تقریب کا انعقاد جس اسٹیڈیم میں کیاتھا، اسے پوار کے ہی کہنے پر تعمیر کیاگیا تھا۔ان کی دختراور این سی پی (ایس پی) رکن پارلیمنٹ سپریاسولے نے اپنے والد اور پارٹی چیف کے خلاف وزیر داخلہ کے بیان کو مضحکہ خیز قرار دیا اور کہاکہ یہ بی جے پی حکومت ہی تھی، جس نے شرد پوار کو 2017 میں پدم ویبھوشن سے نوازا تھا اور وہ نریندر مودی ہی تھے جنھوں نے گجرات کا وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے شردپوارجی کو اپنا سیاسی گرو کہا تھا۔ حالانکہ مودی نے لوک سبھا انتخابات کے دوران پوار کو ‘بھٹکتی آتما’ کہا اور شاہ نے جس انداز میں پوار پر حملے کیے، اس نے سیاسی حلقوں کو حیرت زدہ کردیاہے۔ یہ حقیقت ہے کہ بی جے پی نے شرد پوار کو لبھانے کی پر زور کوششیں کیں۔ یہاں تک نے یہ مشورہ بھی دیا کہ مہاراشٹر میں چھوٹی پارٹیوں اور الگ الگ گروپ کو بی جے پی میں اپنا انضمام کرنے سے متعلق سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ خیر، پوار دباؤ میں نہیں جھکے اورمہاو کاس اگھاڑی(ایم وی اے) اور انڈیا بلاک کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے ہیں۔ یہ محسوس ہوتا ہے کہ امت شاہ مایوسی کا شکار ہیں یہی وجہ تونہیں کہ امت شاہ کا رویہ اتنا شدت پسندانہ اور زبان اتنی تلخ رہی ۔
لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کا 400 پار کرنے کا نعرہ ناکام ہوگیا اور وہ اپنے بل بوتے پر اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ اسے دو علاقائی پارٹیوں کا سہارا لینا پڑا ہے۔ اسے 80 سیٹوں کے ساتھ اتر پردیش اور 48 سیٹوں کے ساتھ مہاراشٹر میں بڑا جھٹکا لگا ہے،مہاراشٹر کی بات کرتے ہیں توسیاسی طور پر ملک کی اس دوسری سب سے بڑی ریاست میں بزرگ رہنما شرد پوار کو سیاست کا ‘چانکیہ’ کہا جاتا ہے۔ لیکن، پچھلے سال اس چانکیہ کو ان کے بیٹے جیسے بھتیجے اجیت پوار نے بہت تکلیف دی۔ اجیت پوار نے اسی پارٹی پر قبضہ کر لیا جو پوار نے بنائی تھی۔ اس میں بی جے پی کی بالواسطہ حمایت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ این سی پی سے علیحدگی کے بعد اجیت پوار بی جے پی حکومت میں شامل ہو گئے اور ریاستی حکومت میں نائب وزیر اعلیٰ بن گئے۔
شردپوار نے 83 سال کی عمر میں اتنی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا کہ انہیں مہاراشٹر کے عظیم جنگجوؤں کو شکست دینا پڑی۔ 83 سال کی عمر میں شرد پوار نے مہاراشٹر میں انڈیا الائنس کی حکمت عملی کی قیادت کی۔ ہر نشست کے لیے حکمت عملی بنائی۔ شیوسینا ادھو دھڑے کے ادھو ٹھاکرے اور کانگریس کے ریاستی صدر نانا پٹولے کے پیچھے چٹان کی طرح کھڑی تھی اور پھر کیا؟ مودی اور امیت شاہ کے ساتھ ساتھ دیویندر فڑنویس کی تمام حکمت عملی ریاست میں برباد ہوگئی، درحقیقت شرد پوار کو جاننے والوں کوپتہ ہے کہ وہ مہاراشٹر کے مغربی اور مراٹھواڑہ علاقے میں کتنے بڑے لیڈر ہیں۔انہیں جب بھی کوئی چیلنج ملا ،وہ اسے قبول کرتے رہے۔ 2019 کے مہاراشٹر اسمبلی انتخابات میں، انہوں نے اکیلے ہی مودی لہر کو چیلنج کیا اور این سی پی کو کانگریس سے بڑی پارٹی بنا دیا،لوک سبھا میں ایک بڑی شکست کے بعد شاہ نے چلینج کرتے ہوئے کہاکہ بی جے پی مہاراشٹر، ہریانہ اور جھارکھنڈ جیت لیں گے تو راہل اور انڈیا بلاک کا تکبر چور چور ہو جائے گا۔
شرد پوار اور راہل گاندھی پر حملہ کرنے کے بعد شاہ کے نشانے پر ادھو ٹھا کرےہیںں9 ۔انھوں نے ممبئی دھما کہ معاملوں کے ایک ملزم یعقوب میمن کے لیے معافی مانگنے والوں میں شامل ہونے کا الزام لگایا۔ واضح طور سے شاہ متحد این پی سی کا ذکر کر رہے تھے۔تب اجیت پوار بھی اس کا حصہ ہوا کرتے تھے۔ کیا وہ بھول گئے کہ بی جے پی نے اجیت پوارسے ہاتھ ملا لیا ہے اور انھیں محکمہ مالیات کے ساتھ نائب وزیر اعلیٰ بھی بنا دیا ہے؟ ظاہر ہے، بی جے پی پر ان تینوں ریاستوں کو جیتنے کا دباؤ ہے جو بی جے پی سے دور رہ گئیں ،لیکن مبصرین کا خیال ہے کہ امت شاہ کے اس تلخ حملے سے فائدہ ہونے کی جگہ کہیں نقصان نہ پہنچ جائے۔
9867647741