ـفلسطین-اسرائیل تنازع کے ۷۵؍ سال: فلسطین کے اندر ظالم اور مظلوم کی کشمکش میں حق کا ساتھ دیں: امن و انصاف مورچہ کی اپیل

0
4

ممبئی؛ مراٹھی پتر کار سنگھ فلسطینی تنازع کو۷۵؍سال مکمل ہو چکے ہیں اور اس عرصے میں ہزاروں بے گناہ لوگ مارے جا چکے ہیں۔ آج ملی تنطیموں کی پریس کانفرنس ہوئی جس میں کہا گیا کہ ہم دونوں طرف کے تمام بے گناہ متاثرین کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں جو اس دوران موت کا شکار ہوگئے اور خونریزی کی مذمت کرتے ہیں۔ اسرائیل کی جارحیت نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ وہ ایک دہشت گرد ملک ہے۔ کیمیاوی ہتھیاروں یعنی فاسفورس کی بمباری کی وجہ سے بچوں سمیت شہریوں کی ایک بڑی تعداد مر رہی ہے۔ تاہم نام نہاد مہذب مغربی دنیا اسے بے بنیاد اور جعلی خبروں سے جواز فراہم کر رہی ہے۔ یہ نسل کشی کے سوا کچھ نہیں ہے اور اسے جلد از جلد روکا جانا چاہیے۔ اس مسئلے کی جڑ اسرائیل کا فلسطین پر غاصبانہ قبضہ ہے۔ فلسطینیوں کو بھی اپنی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے کا قانونی حق حاصل ہے۔ اسے دہشت گردی نہ کہا جائے۔ مہاتما گاندھی سے لے کر اٹل بہاری واجپائی تک ہندوستان نے فلسطین کی آزادی اور آزادی کی حمایت کی ہے۔ ہم فلسطینیوں کے حقوق کو آگے بڑھانے اور ان کی حمایت کے لیے اسی منصفانہ پالیسی کو جاری رکھنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ بھارت امن ساز کا اپنا روایتی کردار ادا کرتے ہوئے غزہ میں قتل عام بند کراے۔ پریس کانفرنس کا آغاز شاکر شیخ کی ابتدائی گفتگو سے ہوا جس میں انہوں نے پریس کانفرنس کے مقصد کو واضح کیا۔ مولانا محمود دریابادی نے اپنی گفتگو میں اس بات کو واضح کیا کہ فلسطین ملک فلسطینیوں کا تھا اس پر غاصب اسرائیل نے صیہونی سازش کے ذریعے جگہ کو مستقل پیمانے پر ہتھیانے کا کام کرتے رہے ہیں۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ وہاں پر رہنے والوں کے ساتھ انصاف کیا جائے۔ ظلم و نا انصافی کا خاتمہ کر کے حقدار کو اس کا حق دلانے کی جدو جہد کرنی چاہیے۔ہمارا ملک ایک بڑا ملک ہے، ہم اپنی ملکی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فلسطینی مظلوموں کی اُن کا حق دلانے میں پورا رول ادا کرے۔اگلی گفتگو سرفراز آرزو (آل انڈیا ملّی کونسل کنوینر) نے کی جس میں انہوں نے کہا کہ بھارتی حکومت ہمیشہ فلسطین کے حق میں بولتی رہی ہے اور یہی طرز آگے بھی جاری و ساری رہنا بے حد ضروری ہے۔ ہم محض مذہب کی آنکھ سے اس موضوع کو نہ دیکھیں بلکہ انصاف کے تناظر میں سوچتے ہوئے اس طرز کے ذریعے مظلوموں کو اُن کا حق دلانے کی کوشش کریں ۔ ظہیر عباس رضوی (آل انڈیا شیعہ وقف بورڈ) نے اپنے ملک سے اُمید کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب موقع ڈائلاگ کے ذریعے حل ہونا چاہیے نہ کہ ظلم اور تشدد کے ذریعے۔ہمارے فورین منسٹر نے کہا کہ ہم فلسطین کے ساتھ ہیں اور یہ ساتھ انصاف دلانے پر مبنی ہونا چاہیے۔ روی بھلانے (سینئر صحافی) نے کہا کہ یہ موضوع انسانیت اور انصاف دلانے کا ہے۔ پچھلے 60 -70 سالوں سے اسرائیل مستقل ظلم کے اسباب توڑ رہا ہے، یہ موضوع اس ظلم کے خاتمے کو توڑنے کا ہے۔ اس سے متاثر ہونے والے لوگوں میں بڑی تعداد عورتوں اور بچوں کی ہے۔ بھارتی حکومت فلسطینی مظلوموں کے حق میں آکر غاصب اسرائیل کو سبق سکھائے۔ ڈاکٹر عظیم الدین (صدر موومنٹ فور ہیومن ویلفیئر ) نے کہا کہ یہودی زائیونسٹ ایک عرصے سے مظلوموں پر ظلم کررہے ہیں۔
جاری اُن پر ظلم کے پاداش میں وہ اپنا دفاع کررہے ہیں۔ ۔فیروز میٹھی بوروالا کے مطابق 1967 کی جنگ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ اسرائیل کی لڑائی جگہ کے حصول کی لڑائی ہے۔آج چونکہ مسلم آبادی وہاں پر موجود ہے، اس لیے وہ متاثر ہو رہے ہیں ، اگر وہاں ہندو آباد ہوتے تو وہ بھی اسی طرح متاثر رہتے۔ زایونزم کی تعریف پیش کرتے ہوئے کہا کہ تمام سامراجی طاقتوں کے ساتھ مل کر یا ساتھ لے کر مظلوموں کے خلاف کچھ کیا جائے۔ خصوصی ضرورت ہے اس بات کی کہ سب انصاف پسند طاقتیں مل جل کر مظلوم فلسطینیوں کو اُن کا حق دلائیں۔ڈاکٹر سلیم خان ( سیاسی و سماجی تجزیہ نگر) نے کہا کہ اسرائیل نے اپنی 3 سے 4 لاکھ کی فوج جو غزہ میں روانہ کیا تھا وہ خوف کے مارے ملتوی کرنے کا فیصلہ لیا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ فلسطینی مظلوموں کے لئے دوبارہ آبادکاری کا سلسلہ جاری ہو اور بمباری کے معاملات ختم کیے جائیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here