جاوید جمال الدین
حالیہ لوک سبھا الیکشن کے نتائج کےبعدایک حد تک حالات بہتر نظر آرہے ہیں اورجو انتخابات سے قبل اور انتخابی مہم کے دوران شہر افشانی کرتے رہے ،اُن کی فی الحال بولتی بند ہیں۔اشتعال انگیزی کرنے والے بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی)کی لیڈرشپ اورچھٹ بھیا لیڈروں کی طویل فہرست ہے،اس انتخابات میں کئی کو رائے دہندگان نے پار لگا دیا ہے۔اُن میں خواتین بی جے پی لیڈران بھی شامل ہیں،حیدرآباد،امراوتی اور امیٹھی کی دوشیزہ شامل ہیں۔جواب ٹھکرائی ہوئی ،بھٹکتی آتمائیں بنی ہوئی ہیں۔چند مہینوں میں اُن کا کوئی پر سان حال بھی نہیں ہوگا۔
عام خیال ہے کہ حال کے لوک سبھا الیکشن میں مسلمانوں کا ذکر سب سے زیادہ رہا،لیکن مخالفین انہیں دشمن کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔جیسے کہ سابقہ کالم میں اس بات کا ذکر کیا گیاہے کہ ان نتائجکے بعد مسلمانوں کوماحول میں آکسیجن کی مقدار بڑھنے کا احساس ہورہاہے،نتائج کے بعد طرح طرح کے تجزیہ اور تبصرے سامنے آرہے ہیں،لیکن اس حقیقت کو تسلیم کیا جانا چاہئیے۔ماہرین کا خیال ہے کہ بی جے پی کو 400،پار کے نعرے نے شکست سے دو چار کیا ہے اوراب ان کے اتحادی بھی کھل کر کہنے لگے ہیں،مہاراشٹر کے وزیراعلی ایکناتھ شندے نے بھی چارسوپار کے نعرے پر منفی تبصرہ کیا ہےجوکہ بی جے پی کے گلے کی ہڈی بن گیا ہے۔اس بارمودی سمیت بی جے پی لیڈرشپ کی اشتعال انگیزی کے باوجود رام مندر اورآرٹیکل کی 370،آہٹ تک نہیں سنائی دی ہے،بلکہ بی جے پی اجودھیا فیض آباد کی نشست بھی ہار گئی ہے۔
انتخابی امور کے ایک ماہر نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ایسے معاملات جن کے بارے میں سوچا بھی نہیں گیا،جن پر حزب اختلاف الیکشن لڑرہاتھا، جیسے آئین کاتحفظ اور جمہوریت بچاؤ وغیرہ ،لیکن عوام نے ان معاملات کوتیسرے ،چوتھے اور آخری مراحل میں ان معاملات کواُچک لیا اور اس کو ذہن نشین کرکے ووٹ دیاگیا۔ انتخابی مہم کو آئین بچانے کی مہم میں تبدیل کرنے میں کانگریس رہنماء راہل گاندھی پیش پیش رہے تھے۔اسی چیز نے بی جے پی کو انتخابی نتائج میں کافی خمیازہ بھگتنا پڑا ہےدراصل اس کی وجہ خود بی جے پی کے لیڈروں کی بیان بازی ہے ، وزیر اعظم مودی نے ان چھٹ بھیا لیڈروں کو چپ نہیں کرایا اور غریبی،بے روزگاری ،پسماندگی اور جمہوریت اور سیکولرزم کے تحفظ جیسے معاملات کے ساتھ ساتھ ملک کے آئین کی بقاء کے نعرے نے انتخابات پر گہرا اثر چھوڑا ہے۔ ان کے غرور اور تکبر کو عوام نے چکناچور کردیاہے۔
اگر جائزہ لیا جائے تو
مسلمانوں کا کردار اہمیت کا حامل رہاہے۔انتخابی امور کے ایک ماہر یوگیندر یادونے الیکشن نتائج کے بعد مسلمانوں پر بہترین مثبت بیانات دیئے ہیں۔اس پر بعد میں بات کریں گے ،انتخابات سے قبل یادو نے ایک انٹرویو میں واضح طور پر بڑی بے باکی سے کہا تھاکہ ہندوستان میں مسلمانوں کی گزشتہ دس سال میں جودرگت بنی ہے،اُس کے لئے وہ خود بھی ذمہ دار ہے،کیونکہ “وہ چپی سادھے ” ہوئے اور تماشائی بناہوا ہے۔یہی چیز شرپسندوں کو موقعہ دیتی ہے اور ان کاحوصلہ بڑھتا ہے۔ میں اسے اُن کا ایک جملہ سمجھ رہاتھا،لیکن غوروخوض سے حقیقت سامنے آئی ۔دراصل یہ سچائی کہ مسلمانوں کویہاں دوفائدے ہیں، عام طور پر ملک کے آئین نے جوحقوق ایک عام شہری کو دیئے ہیں،وہ انہیں بھی حاصل ہیں،لیکن ایک اقلیت ہونے پر بھی متعدد حقوق ملے ہیں۔اور اُس کو مہیا کرانا حکومت کا دستوری حق بھی ہے،لیکن دس سال سے اُن حقوق کو پیروں تلے روندا جارہاہے اور مسلمان دل پر پتھر رکھ کراسے برداشت کررہا ہے ۔لیڈرشپ بھی ایک حد تک مطالبات کرتی ہے اورپھر آخرمیں موجودہ حکومت کی دہائی دے کر ہاتھ اٹھا لیتی ہے۔جو کہ اُس کو زیب نہیں دیتا ہے۔
یوگیندر یادو کی بات پر غور کرتے ہوئے یہ احساس ہوا کہ مسلمانوں کو گزشتہ کئی سال سے خصوصاً اترپردیش، آسام، ہریانہ،کرناٹک وغیرہ میں چن چن کر نشانہ بنایا گیا۔دوسرے سیکولر رہنماؤں کے ساتھ ساتھ مسلمان خوف زدہ ساپھٹی پھٹی آنکھوں سے خلاء میں دیکھتارہا،آج کل ” جیسا چل رہا ہے،چلنے دو” کے مترادف سب اپنے خول میں قید رہنا چاہتے ہیں۔ہم جس طرح 6 ،دسمبر1992 کو بابری مسجد کی شہادت پر احتجاجی بن گئے تھے،وہ حوصلہ ،اجودھیا کے مسئلہ پرسپریم کورٹ کے فیصلے پر نظر نہیں آیا،ایسا لگتا ہے کہ یاتو ہم ڈر گئے ،یاپھر خود کوحالات کے سپرد کردیاہے۔یعنی خاموش تماشائی بن کررہ گئے ہیں۔اس خاموشی نے مخالفین کے حوصلے بلند کیے ہیں اور ہمارے پست کردئیے ہیں۔
آخر میں دو باتوں پر مضمون ختم کرنا چاہتا ہوں کہ حال میں سپریم کورٹ نے فلم ” ہم دو ہمارے بارہ ” کو متنازع قرار دے کر اُس پر روک لگا دی ہے۔اگر چند معاملات میں اسی طرح کی کوشش کی جاتی تو یقیناً قانونی اور انتظامی سطح پر کامیابی مل سکتی ہے۔ایسے لاتعداد معاملات ہیں جن میں برسوں سے بغیر مقدمہ نوجوان جیلوں میں ڈال دیئے گئے ہیں،ان میں عمرخالد جیسے نوجوان بھی شامل ہیں،مالیگاوں بم دھماکہ کی ملزمہ پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو ضمانت مل سکتی ہے تو عمر خالد کوکیوں نہیں ملتی ؟ دراصل ہم بحیثیت ملت اس معاملے سے وابستہ نہیں ہوئے ،خاموش رہ کر وقت کا انتظار کررہے ہیں۔
اب بیداری پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ہمیں اس سچائی کا اعتراف کرنا چاہئیے کہ۔مسلمانوں کی گزشتہ دس سال میں حکمراں بی جے پی نے درگت بنائی ہے ،وہ اظہرمن الشمس ہے،
البتہ ہندوستان میں 2024 میں ہوئے لوک سبھا انتخابات کے نتائج نے مسلمانوں کا جمہوریت اور دستور پر اعتماد بحال کیا ہے بلکہ وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ “فضاء میں آکسیجن ” کی مقدار بڑھ گئی اور مستقبل کا ایک لائحہ عمل اور جامع حکمت عملی تیار کرنے پر توجہ دیناہوگا۔ورنہ وقت تیزی سے گزر جائے گااور کسی کی پرواہ نہیں کرے گا۔