کیا ہفتے میں۷۰؍ گھنٹے کام کرنے کامشورہ حق بجانب ہے؟

0
5

جاوید جمال الدین
میں 2005 میں یونائیٹڈ اسٹیٹس انفارمیشن سروسز یایوایس آئی ایس کے زیر اہتمام امریکی حکومت کی دعوت پرایک اسٹیڈی ٹور پر امریکہ کے دورہ پر گیا تھا،جہاں ہمیں تقریباً دس شہروں کے دورے میں ایک بڑے جمہوری ملک میں بھائی بھائی چارے ،ہم آہنگی اور مذہبی آزادی کے بارے میں مطالعہ کرناتھا،ہمارا گروپ جنوبی ایشیاء کے پانچ ممالک ہندوستان ،پاکستان،بنگلہ دیش،نیپال اور سری لنکاسے تعلقات رکھنے والے 9 ،افرادپر مشتمل تھا، ہندوستان اور پاکستان سے تین – تین اور باقی ملکوں بنگلہ دیش،نیپال اور سری لنکا سے ایک ایک دانشور کا انتخاب کیاگیا تھا۔جو تعلیم ، مذہبی امور اور صحافت کے پیشے سے وابستہ تھے۔میں واحد صحافی تھا۔امریکہ کے دورے میں مجھے یہ محسوس ہواکہ وہاں کے ہوٹلوں کے مین کاونٹرس اور ہاؤس کیپنگ کے عملہ کاتعلق ایشیائی ممالک اور میکسیکو سے تھا،خصوصا ہندوستانی،پاکستانی ،بنگلہ دیشیوں کے ساتھ ساتھ فلپائن اور تھائی لینڈ سے تعلق رکھنے والے افراد سنیچر اور اتوار کو نظر آتے تھے ۔میرے دریافت کرنے پر انہوں نے بتایا کہ مقامی امریکی عملہ پیرتا جمعہ مختلف شعبوں میں صبح 8 بجے سے شام 8 بجے تک مکمل ڈیوٹی کرتا ہے اور ان پانچ دنوں کی اپنی اجرت لے جاتا ہے اورہفتہ اور اتوار یعنی ” ویک اینڈ” کو چھٹیاں منانے پر وقت گزارتا ہے اور یہ تمام امریکیوں کا معمول ہے۔یعنی امریکی ہفتے میں 60 گھنٹے کام کرتے ہیں۔جبکہ ہمارے یہاں چوکیداروں کو چھوڑ کر روزانہ آٹھ گھنٹے کام کیاجاتا ہے جو ہفتہ کے چالیس گھنٹے ہی ہوتے پیں،صرف پہلے اور تیسرے سنیچر کو 16 گھنٹے ملاکر 56 گھنٹے ہوتے ہیں۔دراصل۔یہ سب نقشہ کھینچنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ انفوسیس کے روح رواں نارائن مورتھی نے کچھ عرصہ پہلے 70 گھنٹے کام کرنے کی تجویز پیش کی ہے یا قوم کو مشورہ دیا ہے۔اس سلسلہ میں ملے جلے ردعمل سامنے آرہے ہیں۔واضح ہو کہ سب سے پہلے، علی بابا کے بانی جیک ما نے ٹیک ورکرز سے “996” پر عمل کرنے کا مطالبہ کیا تھا، جو ہفتے میں چھ دن صبح 9:00 بجے سے رات 9:00 بجے تک کا شیڈول ہوتاہے۔ پھر ایلون مسک نے ٹویٹر پر کام کرنے والے کارکنوں سے کہا – اب X – “زیادہ شدت” کے ساتھ طویل کام کے اوقات کا عہد کریں اور پچھلے سال کے آخر میں، Tencent کے سی این او پونی ماء نے شکایت کی کہ ان کے ملازمین ہفتے کے آخر میں اسے آسانی سے لے رہے ہیں کیونکہ ان کمپنی وسیع تر مفاد میں جدوجہد کر رہی ہے۔ آئی ٹی کنسلٹنسی انفوسس کے بانی، نارائن مورتی کا خیال ہے کہ ملازمین کو ہفتے میں 70 گھنٹے کام کرنے کی ضرورت ہے اور انہیں اپنے ملک کے لیے فخر کے ساتھ ایسا کرنا چاہیے،تاکہ ترقی کی راہ ہموار ہوں۔ان کا خیال ہے کہ “ہمارے نوجوانوں کو یہ کہنا چاہیے کہ ‘یہ میرا ملک ہے، میں ہفتے میں 70 گھنٹے کام کرنا چاہتا ہوں’،” مورتی نے حال میں ایک انٹرویو میں اس کا۔اظہار کیا اور تجارتی اور صنعتی حلقوں میں ایک بحث چھیڑدی گئی ہے۔جبکہ ٹیک بانی نے تجویز کیا کہ کم پیداواری صلاحیت ہندوستان کو اس کی صلاحیت سے روک رہی ہے، اور دلیل دی کہ نوجوان ہندوستانیوں کو جرمنی اور جاپان کی جنگ کے بعد کی تعمیر نو کی مثال کی پیروی کرنی چاہیے۔مورتی یہ بھی کہہ رہے ہیں کی “پہلی بار ہندوستان کو خاص احترام ملا ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم ترقی کو مضبوط اور تیز کریں اور ایسا کرنے کے لیے ہمیں بہت محنت کرنے کی ضرورت ہے۔”انفوسس کے بانی این آر نارائن مورتی کے کام کے اوقات میں اضافے کے حوالے سے دیے گئے بیان پر بحث جاری ہے۔ کئی لوگ جن میں کانگریس لیڈر اور سابق مرکزی وزیر منیش تیواری بھی ہیں ،اس بحث میں کود پڑے ہیں۔ نارائن مورتی کی حمایت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان جیسے کئی عوامی نمائندے روزانہ 15_12،گھنٹے کام کرتے ہیں۔انہوں نے ایکس پر کہاکہ “میں ہفتے میں 70 گھنٹے کام کرنے کے بارے میں نارائن مورتی کے بیان پر ہونے والے ہنگامے کو سمجھنے سے قاصر ہوں، اس میں غلط کیا ہے۔ مجھے یاد نہیں کہ میں نے آخری بار اتوار کی چھٹی کب لی تھی۔ اتوار کو بھی حلقے میں کام کا دن ہوتا ہے۔ ہے” منیش تیواری نے مزید کہا کہ ’’اگر ہندوستان کو واقعی سپر پاور بننا ہے تو ایک یا دو نسلوں کو ہفتے میں 70 گھنٹے کام کرنے کی پالیسی بنانا ہوگی، ایک دن کی چھٹی کے ساتھ ہفتے میں 70 گھنٹے کام کرنا بہتر ہے اور ایک سال میں 15 دنوں کی چھٹیوں پرغور کیا جانا چاہیے۔”ہندوستان سمیت جنوبی ایشیائی ملکوں کا بھی یہی حال ہے۔نارائن مورتی کی تجویز پر واقعی غور کرنے کی ضرورت ہے،ویسے وزیر اعظم نریندرمودی کے بارے میں پہلے دن سے 18 گھنٹے کام کرنے کا پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے ، میں نے ایک بار پونے میں اعظم کیمپس کے چیئرمین اور ماہر تعلیم پی اے انعامدار سے ان کے فٹنیس اور چاق وچوبند کا سبب جاننا چاہا تو انہوں نے کہاکہ “میں رات 8 بجے موبائیل بند کردیا ہوں اور جلدہی خواب گاہ میں چلا جاتا ہوں،جبکہ علی الصبح چار، ساڑھے چار بجے جاگ جاتا ہوں۔اور چند گھنٹے بعد ہی یعنی 9بجے دفتر پہنچ کر معمول کے کام میں لگ جاتا ہوں۔” یورپ کے دورہ پر مجھے علم ہوا کہ ان کی ترقی کا راز کیا ہے،وہاں قدرتی روشنی صبح چار بجے سے رات نوبجے تک حاصل ہوتی ہے،جس سے ایندھن بچتا ہے۔ چند سال قبل ایک ماہر اور انٹر نیٹ سے وابستہ فیصل فاروقی نے حکومت کو یہ تجویز پیش کی کہ شمال مشرقی ریاستوں میں اور وہ ریاستیں جو بنگلہ دیش کے اُس پار واقع ہیں کہ اسٹینڈرڈ وقت میں ردوبدل کی جائے۔کیونکہ وہاں سورج دہلی،ممبئی،لکھنئو اور چنڈی گڑھ ،اور دیگر علاقوں سے پہلے طلوع ہوتا ہے اور غروب بھی دوسرے مقامات سے پہلے ہوجا تا ہے۔یعنی جب دہلی میں پانچ بجے خوب روشنی ہوتی ہے تو ان علاقوں میں اندھیرا ہوچکا ہوتا ہے۔اس طرح کے معاملات کو سامنے رکھ کر ہمیں نارائن مورتی کی تجویز پر غور کرنا ہوگاکہ کیونکہ زیادہ کام،بہتر سڑکیں ،آمدورفت اور نقل و حمل کے اچھے ذرائع ہی ترقی کی راہ ہموار کریں گے اور حقیقت یہ ہے کہ ان اقدامات کے سبب سُپر پاور بننے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here