کیاعوام نے جمہوریت کوکمزور کرنے کی کوشش ناکام کردی؟

0
4

جاوید جمال الدین 

بی جے پی کی قیادت میں مرکزکی مودی حکومت نے ملک میں  ایک جی آر جاری کیاہے اور یہ اعلان کیا ہے کہ ۲۵، جون کی تاریخ کو یوم قتل دستور کے طور پر منایا جائے گا۔دراصل اپوزیشن کا الزام ہے کہ اس کامقصد ملک میں بے روزگاری ،مہنگائی اور دیگرمسائل  سے  عوام کاذہن ہٹانے کی کوشش کی گئی ہے۔اور تقریباً نصف صدی بعد یہ اعلان کیا گیا ہے، واضح رہے کہ ملک میں ۲۵ ، جون  ۱۹۷۵ء کو اس وقت کی کانگریسی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے ایمر جنسی کا نفاذ کیا تھا، جو ۲۲ مہینوں یعنی ۲۱ ، مارچ ۱۹۷۷ء تک برقرار رہی۔ ایمرجنسی کی کہانی کافی دلچسپ اس لیے ہے  کہ اندرا گاندھی نے اُن کے  مخالف امیدوارراج نارائن کے خلاف لوک سبھاکا الیکشن دھاندلی کر کے جیتا تھا، اور راج نارائن نے مقدمہ لڑ کر اندرا گاندھی کی دھاندلی ثابت کی تھی ۔ الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس جگموہن لال سنیا نے اندرا گاندھی کو عدالت میں طلب کر کے پانچ گھنٹے تک انہیں کمرے میں کھڑا رکھا تھا، اور ان کے خلاف فیصلہ دیا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کسی وزیر اعظم کی عدالت میں اس طرح پیشی ہوئی تھی اور ان کے خلاف فیصلہ سنایا گیا تھا۔ اپنے خلاف فیصلے سے برہم اندرا گاندھی نے ایمر جنسی کے نفاذ کا اعلان کیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایمر جنسی کا نفاذ آئین کی مخصوصی شقوں کی بنیاد پر ہی کیا گیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود ایمر جنسی کے ذریعے آئین کے تحت عوام کو حاصل تمام حقوق اور تمام بنیادی مراعات چھین لی تھیں۔ بڑے پیمانے پر گرفتاریاں، انسانی حقوق کی پامالیاں ،آزادی اظہار اور ذرائع ابلاغ پر پابندی کے اقدامات تھے،جن کی وجہ سے ایمر جنسی کو ہندوستان کا سیاہ ترین دور کہاجاتا ہے۔ اندرا گاندھی نے ساری طاقت اپو زیشن کا منہ بند کرانے کے لیے جھونک دی تھی، لیکن ایمر جنسی کے خلاف جے پرکاش نارائن کی قیادت میں حزب اختلاف کی تحریک ہمیشہ یاد رکھی جائے گی، اس تحریک نے ایمر جنسی کا خاتمہ بھی کرادیا، اندرا گاندھی کو شکست بھی ہوئی اور ایک مخلوط حکومت کاجنتا پارٹی کی قیادت میں  قیام عمل میں آیااور ان کے سر اس کاسہراجاتا ہے ، ایک ایسی حکومت جس نے بعد میں آر ایس ایس اور بی جے پی کو مضبوطی عطا کی۔ یہ سچ ہے کہ ایمر جنسی دستور کے قتل کے مترادف تھی، لیکن کیا اب تقر یبا پچاس سال بعد، اس دن کو ایک نام دے کر منانے کا اعلان مناسب ہے۔

 سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ  بی جے پی کو ایمر جنسی سے کیا لینا دینا ہے، تو یہ بتادیں کہ اس دور میں آرایس ایس اور بی جے پی کے بڑے بڑے لیڈر بھی اندرا گاندھی نے جیل پہنچادیئے تھے۔

سنگھ پریوار کے سر براہ بالا صاحب دیورس اور بی جے پی کے قدآور لیڈر اٹل بہاری واجپئی نے تو با قاعدہ اندرا گاندھی کومبینہ طورپر معافی کے خط بھیجے تھے اور ان کو تعاون کی یقین دہانی کرائی تھی، واجپئی تو یہ کہہ کر پیرول پر باہر آگئے تھے کہ وہ اندرا کے خلاف کسی مظاہرے میں حصہ نہیں لیں گے۔

 حزب اختلاف اور کانگریس کا کہنا ہے کہ بی جے پی کی مرکزی حکومت عوامی مسائل،بے روزگاری اور مہنگائی پر توجہ دے نہ کہ بیتی  ہوئی کسی کہانی کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش نہ کرے۔ اگر بیتی ہوئی باتوں کوچھیڑا گیا تو گزشتہ  دس سالہ دور کا ذکر بھی آئے گا ، جسے عام طور پر غیر اعلانیہ ایمر جنسی کہا گیا ہے اور پھر اس کے دور کی متعدد تاریخ میں بے قصوروں کو نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ کانگریس نے جوابی حملہ تو کرہی دیا ہے ، کانگریس نے 4جون کو’ مودی مکت دیس ‘منانے کا اعلان کیا ہے۔

کانگریس نے جمعہ کو اس وقت کی حکومت کے 1975 میں ایمر جنسی کے نفاذ کی تاریخ کو آئین کے قتل کا دن کے طور پر منانے کے حکومت کے فیصلے پر شدید رد عمل ظاہر کرتے ہوئے لوک سبھا انتخابات میں اس پر اکثریت حاصل نہ کرنے پر مایوسی کا الزام لگایاہے اور کہاہے کہ یہ ستم ظریفی ہے کہ جس حکومت نے پچھلے 10،برسوں میں ہر روز آئین کا قتل کیا ہے وہ آئین کے قتل کا دن منانے جارہی ہے۔

 حکومت کے اعلان پر شدید ردعمل آنا ایک فطری عمل ہے، کانگریس صدر ملکار جن کھڑگے نے ہر سال 25، جون کو آئین کے قتل کا دن کے طور پرمنانے کے حکومت کے فیصلے کو آئین کے تئیں مودی حکومت کی بے حسی قرار دیا اور کہا کہ آئین کے ساتھ ، قتل کا لفظ شامل کرنا ان کی آئین مخالف ذہنیت کو ظاہر کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مودی حکومت نے اپنے آخری 10

سال کے دور اقتدار میں ہر روز آئین کے قتل کا دن منایا ہے اور ہر لمحہ ملک کے ہر غریب اور محروم طبقے کی عزت نفس کو چھینے کا کام کیا ہے۔ مودی حکومت کے دور میں کی گئی کارروائیوں کی گنتی کرتے ہوئے انہوں نے انہیں آئین کا قتل قرار دیا اور کہا کہ “جب مدھیہ پردیش میں بی جے پی کا کوئی لیڈرقبائلیوں پر پیشاب کرتا ہے یا جب پولیس یوپی میں ہاتھرس کی ایک دلت بیٹی کی زبر دستی آخری رسومات کرتی ہے۔ یہ آئین کا قتل نہیں تو اور کیا ہے ؟ جب دلتوں کے خلاف ہر 15 منٹ میں کوئی بڑا جرم ہوتا ہے اور روزانہ چھ دلت

خواتین کی عصمت دری ہوتی ہے تو یہ آئین کا قتل نہیں تو اور کیا ہے ؟ جب سال بھر میں ڈیڑھ لاکھ گھر مسمار کیے جاتے ہیں اور 7.38 لاکھ افراد کو بے گھر کر دیا جاتا ہے تو یہ آئین کا قتل نہیں تو اور کیا ہے ؟ جب منی پور پچھلے 13 مہینوں سے تشدد کی زد میں ہے اور آپ وہاں قدم رکھنا بھی پسند نہیں کرتے، تو آپ کی یہ سوچ آئین کا قتل نہیں تو اور کیا ہے ؟ کانگریس صدر نے وزیراعظم نریندر مودی پر بھی براہ راست حملہ کیا اور کہا کہ مودی جی، آپ کو آئین کے بارے میں بات کرنا پسند نہیں ہے۔ بی جے پی، آر ایس ایس اور جن سنگھ نے کبھی آئین کو قبول نہیں کیا۔ 

 یہ سچ نہیں ہے کہ آر ایس ایس کے ترجمان  آرگنائزر نے اپنے 30 نومبر 1949 کے شمارے میں اداریہ لکھا تھا کہ “ہندوستان کے اس نئے آئین کی سب سے بری بات یہ ہے کہ اس میں کچھ بھی ہندوستانی نہیں ہے۔ جب کووڈ کی وبا کے دوران آپ نے لاکھوں مزدوروں کو بسیں اور ٹرینیں فراہم نہیں کیں، چاہے ان کے پاؤں پر چھالے کیوں نہ ہوں اور انہیں سینکڑوں کلومیٹر پیدل چلنے پر مجبور کیا گیا، کیونکہ آپ کے ذہن میں یہ آیا کہ لاک ڈاؤن لگانا ضروری تھا۔ بغیر کسی تیاری کے کہ یہ آئین کا قتل نہیں تو اور کیا ہے ؟ جب سپریم کورٹ کے 5 موجودہ ججوں نے ایک پریس کا نفرنس کر کے عدالت میں آپ کی حکومت کی مداخلت پر سوالات اٹھائے تو یہ آئین کا قتل نہیں تو کیا تھا ؟ جب آپ کی حکومت نے 95 فیصد اپوزیشن لیڈروں پر مقدمات مسلط کرنے کے لیے ای ڈی، سی بی آئی اور آئی ٹی کا استعمال کیا، کئی منتخب حکومتوں کا تختہ پلٹ دیا، سیاسی پارٹیاں توڑ دیں، انتخابات سے دو ہفتے قبل ملک کی اہم اپوزیشن جماعت کے بینک اکاؤنٹس منجمد کر دیے ، دومنتخب ہوئے وزرائے اعلیٰ کا جیل میں رہنا آئین کا قتل نہیں تو کیا ہے ؟ مرکزی ایجنسیوں کااستعمال کرکے ، کئی منتخب حکومتوں کا تختہ پلٹ دیا، سیاسی پارٹیاں توڑ دیں، انتخابات سے دو ہفتے قبل ملک کی اہم اپوزیشن جماعت کے بینک اکاؤنٹس منجمد کر دیے ، دو منتخب ہوئے وزرائے اعلیٰ کا جیل میں رہنا آئین کا قتل نہیں تو کیا ہے ؟ جب کسانوں پر تین کالے قانون نافذ ہوتے ہیں تو انہیں ایک سال تک دہلی کی دہلیز پر بیٹھنے پر مجبور کیا جاتا ہے، انہیں لاٹھیوں سے مارا جاتا ہے ، ڈرون سے آنسو گیس اور ربر کی گولیاں چلائی جاتی ہیں، جس سے 750، کسانوں کی جان لی جاتی ہے۔ یہ آئین کا قتل نہیں تو کیا ہے ؟ جب پارلیمنٹ حکمراں جماعت کے اکھاڑے میں تبدیل ہو جائے، جس میں ایک آمر کی طرح اپوزیشن کے 146،اراکین پارلیمنٹ کو معطل کر کے اہم قوانین یکطرفہ طور پر منظور کر لیے جائیں، تو یہ آئین کا قتل نہیں تو اور کیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ جب آئین کے چوتھے ستون کو زیادہ تر میڈیا کو ڈرا کر 24، گھنٹے اپوزیشن پر انگلیاں اٹھا کر ، میڈیا کو کارپوریٹ دوستوں کے ہاتھوں خرید کر تباہ کر دیا جائے تویہ جمہوریت کاقتل نہیں تو اور کیا ہے ؟ جب پارلیمنٹ میں الیکٹورل بانڈ اسکیم کو زبردستی پاس کیا جاتا ہے اور بی جے پی کو ڈونیشن بزنس اور ای ڈی، سی بی آئی، آئی ٹی کی دھمکیوں سے غیر قانونی طور پر مالا مال کیا جاتا ہے، تو یہ آئین کا قتل نہیں تو اور کیا ہے۔ 

  سنگھ پریوار پرعام طورپر الزام عائد کیاجاتا ہے کہ ”  بی جے پی اور آر ایس ایس کے آئین کو مٹا کر منو اسمرتی کو نافذ کرنا چاہتی ہے۔ جس کی وجہ سے دلتوں، قبائلیوں اور پسماندہ طبقات کے حقوق پر حملہ ہو سکتا ہے۔ اس لیے وہ آئین جیسے مقدس لفظ کے ساتھ ، قتل جیسا لفظ جوڑ کر بابا صاحب ڈاکٹر امبیڈ کر کی توہین کر رہی ہے۔“

ویسے حالیہ لوک سبھا انتخابات کے نتائج  ملک میں کئی بڑی اہم تبدیلیوں کا اشارہ دے رہے ہیں، اس کا مطلب ہے کہ 64 کروڑ سے زائد لوگوں نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا۔ یہ ملک میں جمہوریت کی بقاء کی بہترین علامت ہے اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستانی اپنے ووٹ کی قیمت جانتا ہے اور  اچھی طرح سمجھتا ہے۔ اپنے خدشات کو دور کرنے اور ملک کے مستقبل کو صحیح سمت دینے کے لئے جمہوری عمل ایک موثر اور بھروسہ مند طریقہ ہے،رائے دہندگان نے جمہوری حق کا استعمال کر کے اپنے ووٹ کی طاقت سے ملک میں ایک بڑی سیاسی تبدیلی لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ انتخابی نتائج آنے کے بعد  حکومت کی تشکیل ہو چکی ہے اور پارلیمنٹ کا مشن برسوں بعد ایک مضبوط اپوزیشن کی موجودگی میں چلنا شروع ہو گیا ہے۔

 گزشتہ دس برسوں کے دوران نفرت اور تقسیم کو فروغ دینے   والی طاقتوں نے قوم کو ختم کرنے کی بھر پور کوشش کی۔ لیکن اس زبان کو بند کرنے کی تدبیراپنائی گئی،جس نے برسر اقتدار حکمراں کو  آئینہ دکھانے کی جرات کی یہاں تک کہ آئین کے بنیادی ڈھانچے میں اعلانیہ طورپر ہیرا پھیری اور تبدیلی کی گی۔ ان تمام پس منظر کو اس میں رکھتے ہوئے انتخابی نتائج کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ انتخابی مشن کے دوران مشتعل کرنے والی بیان بازیاں، تفرقہ انگیز سرگرمیاں اور ذات پات اور برادری کے نام پر تقسیم کرنے والی ہاتوں کو بڑی چالاکی کے ساتھ عوام کے بیچ مشتہر کیا گیا۔ عوام نے جمہوریت کو بچانے کے لیے  جوکیاقوم کی تعمیر کے لیے انتہائی ضروری تھا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here