تحریر :خیال اثر (مالیگاؤں)
موبائل :9271916150
فنون لطیفہ کی شاہراہوں سے پھوٹنے والے تمام گلیارے اتنے دل آویز اور دل کشا ہوا کرتے ہیں کہ ایک بار جو بھی اس کی زلف گرہ گیر کا اسیر ہوا کسی صورت نکلنے کو تیار ہی نہیں ہوا. شاشتریہ سنگیت ہو یا بھارتیہ ناٹیم جیسا رقص ہو دونوں ہی دیکھنے اور سننے والوں کو کچھ اس طرح مدہوش کردیتے ہیں کہ کسی کو اپنا ہوش ہی نہیں رہتا. اسی طرح مالیگاؤں کے وہ بزرگ حضرات جو آج اپنی عمر کی آخری دہلیز تک جا پہنچے ہیں ان کے ذہن و دل میں ہی نہیں بلکہ آنکھ دریچوں میں دو اشخاص اپنی تمام تر شکل و شباہت کے ہمراہ آج بھی اول دن کی طرح موجود ہوں گے. اتفاقاً دونوں ہی شخصیات کی عرفیت بابو بھائی رہی ہے. ایک بابو بھائی اگر شبیر سیٹھ کے سردار سنیما گھر میں ٹکٹ چیکر کے طور پر ملازمت پر مامور رہے تھے تو دوسرے بابو بھائی جن کا مسکن مشہور و معروف بھکو چوک میں رہا تھا. ثانی الذکر بابو بھائی کا خانوادہ براس بینڈ جیسی خدمات کی اس طرح انجام دہی پر مامور رہا تھا جو شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کے مواقع پر بارات کے آگے آگے بینڈ باجہ پر فلمی گانوں کی مدھر مست دھنیں ایسے جذب کے عالم میں بجاتے تھے کہ راہ چلتے افراد کے قدموں میں بھی تھرتھراہٹ پیدا ہو جاتی تھی. شفیق احمد محمد سلیم بھی اسی خانوادہ کے ایسے فرد ہیں جن کی پیدائش مابعد آزادی یکم جون 1949 کو مالیگاؤں شہر میں ہی ہوئی تھی. موصوف نے ابتدائی تعلیم سلیمانی مسجد کے مقابل موجود میونسیل اسکول نمبر3 میں حاصل کی . ممبئی کے ساکن ماہر و مشاق سنگیت کار عبدالرحیم خان محمد نے ہی آپ کے دادا جان سے لے کر خاندان کے تمام افراد کو سنگیت سے اس طرح آشنا کیا تھا کہ ان کا کوئی ثانی نہ رہا. اگر ایک جانب شفیق احمد کے برادر شبیر ماسٹر فیمس براس بینڈ کے ذریعے تمام شازندوں کی راہنمائی کا فریضہ انجام دیا کرتے تھے تو عزیز فیمس اور رفیق احمد فیمس کے ساتھ بھی شفیق احمد نے بطور شازندہ اپنی خدمات کی انجام دہی اس طرح کی کہ شادی بیاہ اور منگنی کے موقع پر سارا شہر ان کی خدمات کا متمنی رہا کرتا تھا. 76 سال کی طویل عمر گزارنے کے بعد شفیق احمد مکمل چاک و چوبند اور متحرک ہیں. اول اول 8 سال کی عمر جب پہلی بار کسی ساز کو منہ لگایا تھا تو ان کے حصے میں والد محترم کی ڈانٹ پھٹکار آئی تھی لیکن بھائیوں کا گانا بجانا اور خود اپنے شوق والہانہ کا نتیجہ یہ رہا کہ 8 دنوں کے اندر ہی ساز و سنگیت میں کچھ اس طرح مہارت حاصل کر لی کہ 80 کی دہائی آتے آتے کوہ نور براس بینڈ کی بنیاد گزاری کر کے اپنا کاروبار بھائیوں سے الگ کر لیا. حالانکہ شروعات کے دنوں میں اپنے تینوں بھائیوں کی ہمراہی میں ہی ان کا سنگیت سے یارانہ رہا تھا. کوہ نور براس بینڈ کے ذریعے شفیق احمد محمد سلیم نے مالیگاؤں ہی نہیں بلکہ اورنگ آباد, ناسک سٹانہ ناند گاؤں, دابھاڑی پاٹنہ اگت پوری گھوٹی اور جلگاؤں جیسے شہر اور تعلقوں میں شادی بیاہ کے مواقعوں پر کوہ نور براس بینڈ اور اپنی معیت میں موجود تمام شازندوں کے ہمراہ اسطرح اپنی خدمات انجام دیں کوہ نور براس بینڈ کا نام شہر اور قرب و جوار کے علاقوں میں مثل کوہ نور چمکتا ہوا ایک برانڈ کی صورت مشہور و معروف ہو کر رہ گیا.
شفیق احمد محمد سلیم کی شخصیت آج ایک نام نہیں بلکہ ایک ایسے اسکول یا یونیورسٹی کے مصداق ہے جنھیں ہر ساز بجا لینے میں حد درجہ اعتبار حاصل ہے. اگر انھیں کلاسیکل دھنون کیہ اسی دسترس نے مثل کوہ نور بنا کر نمایاں مقام کا حقدار قرار دیا ہے تو بدلتے رجحانات و امکانات کی رمق نے بھی ان کے جنون اور دلچسپیوں میں جدید تقاضوں سے مزین وہ سنگیت نمایاں کردیا جسے بدلتے عصر میں ماڈرن سنگیت کہا جاتا ہے. گیت سنگیت اور سر تال پر پر عبور حاصل ہونے کا اعزاز یہ ہے کہ ان سے سنگیت سیکھنے والے شاگردوں کی تعداد بتائی نہیں جا سکتی جو مالیگاؤں ہی نہیں بلکہ ضلع ناسک کے تمام تعلقوں میں بکھرے ہوئے ہیں. شفیق احمد محمد سلیم کو یہ اعزاز بھی حاصل یے کہ انھوں نے غریب و نادار بچوں کو نہ صرف سنگیت سے آشنا کیا بلکہ تمام کو اپنی ہمراہی میں ایسے با عزت روزگار سے ہمکنار کیا جو ان کی مفلوک الحالی دور کرنے کا سبب بھی بن گئے. موصوف نے اتنے پر ہی بس نہ کرتے ہوئے اپنی رہنمائی میں شازندے کے طور پر کام کرنےوالے, بچوں کو بلوغیت کی حدوں تک پہنچنے کے بعد ان شادی بیاہ کے ذمہ دارانہ فرائض نہ صرف خندہ پیشانی سے برداشت کئے بلکہ اپنے ناتواں شانوں پر سارا خرچ بھی اس طرح برداشت کیا کہ کسی کو کوئی شکایت کا شائبہ تک نہ ہوا. موصوف کو سنگیت کی تمام تر روایتیں اس طرح ازبر ہیں کہ راہ چلتے ہوئے اگر کوئی پوچھ لے تو راستہ عبور کرتے ہوئے بھی وہ اس طرح وہ بتا دیں کہ “گویا یہ بھی میرے دل میں تھا” شاشتریہ سنگیت کی تمام روایتوں سے واقفیت ہی انھیں آج بھی اوروں سے مختلف اور منفرد بناتی ہیں. ان کے بے شمار شاگرد آج بھی محکمہ پولیس اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں . گیت سنگیت کو مسلسل سات دہائیوں تک اپنے جگر کا لہو پلانے کے باوجود دین سے ان کی رغبت کا اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آج بھی وہ پنج وقتہ نمازوں اور تلاوت کا اہتمام کرتے ہیں. ان کے والد محمد سلیم عرف بابو بھائی کا دور کلاسیکل سنگیت پر مبنی رہا تھا جبکہ آج مراٹھی اور ایرانی سنگیت کا شہرہ چہار وانگ عالم میں پھیلا ہوا ہے. کلاسکل سنگیت کی خوبی یہ تھی لوگ بے اختیار اپنے قدموں کو رقص کرنے سے روک لیتے تھے جبکہ آج کے ایام میں سکہ رائج الوقت بنا گیت اور سنگیت کی کان پڑی آوازیں سماعتوں میں پگھلا ہوا شیشہ انڈیل دینے کا باعث ہوتی ہیں. آپ نے اپنے براس بینڈ کے تمام شازندوں کی پرورش و پرداخت ہی نہیں بلکہ سنگیت کے تمام اسرار و رموز سے انھیں اس طرح آشنا کیا کہ آج ہر کوئی اپنی جگہ مسلم ہے. عمر کی سات دہائیاں گزارنے کے بعد بھی آپ میں سکھانے کا جذبہ اول دن کی طرح موجود ہے کیونکہ موصوف کا دل و دماغ اسی طرح تندرست و توانا ہے جیسا ایام جوانی میں موجود تھا. آپ کا کہنا ہے کہ 1867 میں ان کے دادا جان مکو باجے والے جو نواب تھے وہ ساز و سنگیت کی محفلوں میں ہارمونیم اور مختلف سازوں کو اتنی مشاقی کے ہمراہ بجاتے تھے جیسے دیپک راج بجانے سے چراغ جل اٹھتے تھے یا کوئی ساز پر راگ ملہار چھیڑے تو بارش برس پڑے. موصوف کی داستان زندگی اتنے پر ہی موقوف نہیں بلکہ ایسی داستان الف لیلہ یعنی ہزار داستان پر مبنی ہے جس کی تہہ دار تہیں کھولتے جائیں تو نت نئی دنیاؤں سے روشناسی ہوتی جائے. یہ سلسلہ دار و رسن ان پر ہی موقوف نہیں بلکہ جب نسل آئندگاں کی جانب اپنے قدموں کو بڑھایا تو مثل کوہ نور ابوالفیصل شفیق احمد نامی ایسا نادر و نایاب کوہ نور بھی منشہہ شہود پر در آیا جس کی چمک دمک کے آگے ملکہ الزبیتھ کے تاج میں جڑا ہوا وہ کوہ نور ہیرا بھی شرمسار ہو کر رہ گیا جسے انگریز سامراج نے شاہجہاں کے تعمیر کردہ تخت طاؤس سے نوچ کر برطانوی سامراج کی ملکہ الزبیتھ کے تاج کی زینت بنا دیا تھا. آج ابوالفیصل شفیق احمد بھی اپنے والد محترم کی طرح ہی ایک ایسا برینڈ بن گیا ہے جس نے کوہ نور میوزک اکیڈمی اور ریکارڈنگ روم کے ذریعے سنگیت کے دیوانوں کو سنگیت کے اسرار و رموز سے نہ صرف آشنا کررہا ہے بلکہ ان میں مخفی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا ایسا کارنامہ انجام دینے کے در پے ہے جس سے عالم رنگ و بو حیران و ششدر ہو کر رہ جائے. بامبے جیسے کاسمو پولٹین شہر میں تفویض کیا جانے والا دادا صاحب پھالکے ایوارڈ برائے سنگیت کی شکل میں گولڈن روز ان کی خدمات کا اعتراف نامہ تو نہیں مگر “یہ اعزاز بھی خوب ملا ہےاک خامہ فرسائی کا “غنیمت کہلائے گا. کیونکہ کسی کو زندگی میں ہی کوئی اعزاز تفویض کردیا جانا خدمات کا عظیم نعمل البدل کہلاتا ہے. آج ابولفیصل جس مقام پر اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے جولانیاں بکھیر رہا ہے اس میں اگر خود ان کی دلچسپی کا مظہر نمایاں ہے تو ان کے والد محترم شفیق احمد کی کار فرمائی کم نہیں. کیونکہ انھوں نے ہی ابوالفیصل کی اس طرح جی جان سے پرورش و پرداخت کی ہے کہ آج وہ دنیائے سنگیت میں تابندہ و درخشاں کرنیں بکھیر رہا ہے. یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ مالیگاؤں پولیس پریڈ گراؤنڈ پر جب جب بھی یوم آزادی اور یوم جمہوریہ کی تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے تو یہی خانوادہ پولیس پریڈ کے دوران اپنی خدمات کی انجام دہی کے لیے مدعو کیا جاتا رہا ہے. گذشتہ دنوں ہی عوامی فنکار گروپ اور کوہ نور میوزک اکیڈمی کے اشتراک سے شفیق احمد محمد سلیم کی 76 برسوں پر محیط خدمات کا اعتراف کیا گیا تو ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ اٹھے کہ کوئی تو ہے جو ان کی خدمات کی سراہنا کررہا ہے. ساز و سنگیت کی 76 سالہ خدمات کوئی معمولی بات نہیں نہ ہی ایسی خدمات بیش بہا سے کسی صورت انحراف ممکن ہے بلکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ شہر کی ساری سنگیت کلبیں یکے بعد دیگرے ان کے استقبال پر اس طرح کمر بستہ ہو جاتی کہ روز بروز کہیں نہ کہیں ان کی بے مثال خدمات کے عوض سنگیت کی محفلیں آراستہ و پیراستہ ہو جاتیں.