:وقف اورمساجد کے سلسلے میں صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی کا حکومتوں کو انتباہ جمعیۃ علماء کشن گنج کے اجلاس عام میں وقف، مساجد، مدارس اور ناموس رسالت کے تحفظ پر اہم قراردادیں منظور
نئی دہلی ؍کشن گنج: جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے کشن گنج کے لہرا چوک پر ہزاروں کے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے حکومتوں کو متنبہ کیا کہ وہ فرقہ پرستوں اور اس کے ایجنڈوں کی سرپرستی سے بازآئیں ، مولانا مدنی نے کہا کہ سڑکیں بنائی جائیں اور ملکی ترقی کے اقدامات کیے جائیں ، لیکن اگر انسانوں کی بیچ ذات پات اورمذہب کی بنیاد پر تفریق جاری رہی تو یہ ملک کے ساتھ سب سے بڑی غداری ہوگی ۔مولانا مدنی نے یہ باتیں جمعیۃ علماء کشن گنج کے زیر اہتمام منعقد اجلاس عام میں کہیں ، جس کی صدارت صدر جمعیۃ علماء کشن گنج مولانا غیاث الدین نے کی جب کہ نظامت مولانا خالد انور ناظم اعلی جمعیۃ علماء کشن گنج نے کی ۔ اس موقع پر جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا حکیم الدین قاسمی ، مولانا مفتی محمد عفان منصورپوری، جمعیۃ علماء بہار کےصدر مولانا مفتی جاوید اقبال ، مولانا مفتی افتخار قاسمی کرناٹک سمیت ملک کی کئی اہم شخصیات بھی موجود تھیں۔ان حضرات نے کشن گنج سے قومی اتحاد اور تمام مذاہب کے لوگوں کے درمیان بھائی چارہ کا پیغام دیا ۔مولانا مدنی نے اپنے خطاب کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اس ملک کی موجودہ صورت حال انتہائی حساس اور فکر انگیز ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایک خاص طبقے کی بالادستی کے قیام اور دوسرے طبقات کو رسوا کرنے، حاشیے پر دھکیلنے اور محروم بنانے کی باقاعدہ اور منظم کوششیں کی جارہی ہیں۔ اس مکروہ مہم کو صرف حکومتی سرپرستی ہی حاصل نہیں بلکہ حکومت ہی کروارہی ہے۔ خاص طور پر جب مسلمانوں کی بات آتی ہے تو انہیں قانونی طور پر بے بس، سماجی طور پر علیحدہ اور معاشی طور پر کمزور بنانے کی سازشیں عروج پر ہیں۔ ان کے مذہب ، ان کی شناخت اور وجود کو غیر ضروری، یہاں تک کہ ناقابل برداشت بنادیا گیا ہے۔مولانا مدنی نے کہا کہ کسی بھی مہذب سماج کے لیے عدل وانصاف سب سے بڑا معیار ہے ، عدل و انصاف کے بغیر بڑی سے بڑی ریاست اور بڑے سے بڑا ملک باقی نہیں رہ سکتا ہے ۔ ملک میں امن وامان کا قیام اور جرائم سے پاک معاشرے کی تشکیل انصاف کے بغیر نہیں ہو سکتی : لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے قلیتوں کے آئینی حقوق اور دستور کے بعض بنیادی اصولوں کی تشریح کی ایسی مثالیں سامنے آئی ہیں جنھوں نے عدالتوں کے کردار پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ انھوں نے اس سلسلے میں مساجد کے سلسلے میں مختلف عدالتوں میں جاری مقدمات پر روشنی ڈالی ۔وقف ایکٹ پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا مدنی نے کہا کہ و قف ایک دینی معاملہ ہے، مسلمان آخرت کے ثواب کی غرض سے اپنی جائیداد وقف کرتے ہیں۔ یاد رکھئے کہ یہ اوقاف کسی بادشاہ کی یا کسی حکومت کی ملکیت نہیں ہیں ، یہ سو فی صد مسلمانوں کی وقف کردہ جائیدادیں ہیں۔ہمارے ملک میں وقف جائیدادوں کی کثرت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ دین اسلام نے انسانوں کی خیر خواہی اور فلاح و بہبود پر کس قدر زور دیا ہے اور مسلمانوں نے کس قدر فراخ دلی کے ساتھ اللہ کی رضا اور صدقہ جاریہ کے لیے اپنی جائیدادیں وقف کی ہیں۔یہ بزرگوں کی وراثت ہے ، آج اسے ہم اس طرح ضائع ہوتے نہیں دیکھ سکتے ۔ ہم دہائیوں سے اس کے خورد برد ہونے اور اس پر ناجائز قبضہ اور تسلط ہونے کی شکایت کرتے رہے ہیں ، جمعیۃ علماء ہند نے حکومتوں سے بارہا مطالبہ کیا ہے کہ وقف جائیدادوں کا انتظام و انصرام ایس جی پی سی کے طرز پر کیا جائے ، لیکن حکومتوں نے ذرہ برابر بھی توجہ نہیں دی اور وقف کی بد حالی کا تماشہ دیکھتی رہیں۔مولانا مدنی نے کہا کہ موجودہ حکومت وقف ایکٹ میں اس طرح ترمیم کر رہی ہے کہ وقف کے مقاصد اور اس کے منشا کو بالکل ختم کر دیا جائے۔ ہم کوئی ایسی ترمیم قبول نہیں کریں گے جس کا مقصد وقف پر سرکاری تسلط بڑھانا ہو ۔ ہم یہ صاف کر دینا چاہتے ہیں کہ حکومتیں ہمارے مذہبی معاملات میں مداخلت نہ کریں، ورنہ ہم آپ سے آئین کی حد میں رہ کر لڑیں گے اور آخر دم تک لڑتے رہیں گے۔مولانا مدنی نے مسلمانوں کو نصیحت کی کہ مشکل حالات میں مسلمانوں کا عمل اور رد عمل صبر ، حکمت اور دانشمندی کا آئینہ دار ہونا چاہیے۔ یہ وقت تقاضا کرتا ہے کہ مسلمان اپنی بصیرت اور دور اندیشی کا مظاہرہ کریں، مثبت اور متوازن اقدامات کے ذریعے معاشرتی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار مزید مضبوط کریں۔ہمیشہ اندھیرا نہیں رہتا ، ایک دن سویرا بھی ہوگا ۔انھوں نے کہا کہ ہمارا مزاج دعوتی ہونا چاہیے ، عداوتی نہیں۔جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا حکیم الدین قاسمی نے جمعیۃ علماء ہند کی طویل خدمات پر روشنی ڈالی ، مفتی محمد عفان منصورپوری صدر دینی تعلیمی بورڈ صوبہ اترپردیش نے اپنے خطاب میں معاشرتی اصلاح کے ساتھ اپنی اولاد کو دینی تعلیم سے وابستہ کرنے اور اصلاح معاشرہ کو عنوان بنایا ۔ ان کے علاوہ کشن گنج کے کانگریس ایم پی جاوید عالم، عبدالواحد چشتی انگارہ درگاہ اجمیر شریف اور ایم ایل ایے مولانا سعود اسرار ، اظہار اصفی ، اختر الایمان ۔اظہار الحسن ،انظار نعیمی، ماسٹر مجاہد، مفتی اطہر جاوید قاسمی سمیت کئی شخصیات نے خطاب کیا ۔اجلاس میں وقف جائیدادوں، مساجد، مدارس اسلامیہ اور ناموس رسالت ﷺ کے تحفظ سے متعلق اہم قراردادیں منظور کی گئیں۔ ایک اہم تجویز میں وقف ترمیمی بل کو مسلمانوں کے لیے مہلک قرار دیتے ہوئے اس کی سخت مخالفت کی گئی۔ تجویز میں بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار، لوک جن شکتی پارٹی کے صدر چراغ پاسوان اور دیگر سیکولر جماعتوں سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ مسلمانوں کے مفادات کے پیش نظر اس بل کی سخت مخالفت کریں۔ اجلاس نے مساجد کے خلاف جاری فرقہ وارانہ مہم پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور عبادت گاہ خصوصی تحفظ ایکٹ 1991 کے تحت تمام مقدمات کو یکجا کرنے کے لیے سپریم کورٹ سے آئینی بینچ تشکیل دینے کی اپیل کی۔ شرکاء نے عدالت سے مطالبہ کیا کہ آرٹیکل 142 اور 139A کے تحت اس معاملے پر جلد از جلد فیصلہ صادر کیا جائے تاکہ مساجد کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔اجلاس نے مدارس اسلامیہ کے خلاف جاری منفی پروپیگنڈے کی مذمت کی اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس مہم کو فوری روکے۔ ناموس رسالت ﷺ کے تحفظ کے سلسلے میں بھی قرارداد منظور کی گئی۔ اجلاس نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ سوشل میڈیا پر رسول اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کے مرتکب افراد کے خلاف سخت کارروائی کرے۔ تجویز میں عالمی اداروں سے بھی مطالبہ کیا گیا کہ وہ اقوام متحدہ کے ذریعے ایسا قانون بنائیں جس کے تحت انبیاء کرام علیہم السلام کی شان میں گستاخی کو عالمی جرم قرار دیا جائے۔اجلاس میں مسلمانوں سے اپیل کی گئی کہ وہ اپنے عقیدے پر مضبوطی سے قائم رہیں اور ناموس رسالت ﷺ کے تحفظ کے لیے ہر قانونی اور جمہوری طریقہ اختیار کریں۔اجلاس عام میں ملک میں بڑھتی ہوئی اسلاموفوبیا اور نفرت انگیزی کی شدید مذمت کی گئی۔ اجلاس نے حکمراں جماعت کے ذمہ داران کی جانب سے اشتعال انگیز بیانات اور سیمانچل میں نفرتی ریلی کو ملک کی سالمیت کے لیے خطرہ قرار دیا۔