غزہ کا سبق

0
1

ممتاز میر  

 حما س غزہ میں ۲۰۰۶ میں جمہوری طریقے سے بر سر اقتدار آئی تھی ۔جیتی تو وہ مغربی کنارے میں بھی تھی مگر مغرب کے جمہوریت کے چیمپئنوں نے سازش کرکے مغربی کنارہ اس سے چھین لیااور جیتنے کے باوجود حماس کو غزہ میں سمٹنا پڑا۔اس کے بعد سے حماس اور اسرائیل میں ۵ جنگیں ہو چکی ہیں ۔جبکہ عرب ممالک گزشتہ نصف صدی سے چوڑیاں پہن کے بیٹھے ہیں ۔تازہ حماس اسرائیل تنازعے سے پہلے جولائی ؍اگست ۲۰۱۴ میں بھی دونوں کے درمیان ایک جنگ ہو چکی ہے ۔تب بھی حماس نے اسی طرح اسرائیل کے دانت کھٹے کر دئے تھے ۔اس جنگ کے خاتمے کے بعد بھی ستمبر ۲۰۱۴ میں ہم نے ایک مضمون اسی عنوان سے سپرد قلم کیا تھا جو کئی اخبارات میں شائع بھی ہوا تھا ۔اس وقت تو غزہ کا سبق ایک ہی تھا مگر اس بار تو غزہ نے اسباق کی لائن لگا دی ہے ۔   ۷؍اکتوبر کی صبح جب حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا تو دشمن کیا دوست بھی اس کی طاقت پر حیران رہ گئے۔یہ پہلی بار ہوا کہ حماس نے تین اطراف ،بحری بری اور فضائی راستوں سے اسرائیل کی حدود میں حملہ کیااور یہ دنیا کیا اسرائیل کے وہم و گمان میں نہ تھا۔حالانکہ میڈیا کے کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ اسرائیل کو اس کا علم تھا مگر انھوں نے اسے لائق التفات نہ سمجھا ۔اس قسم کی باتیں اس قسم کے حالات میںعذر گناہ بدتر از گناہ ہوتی ہیں ۔چلئے یہ فرض کر لیا کہ انھیں علم تھا پھر ان کی ساری سیکوریٹی ایجنسیاں الرٹ پر کیوں نہ تھیں ؟سو کیوں رہی تھیں؟حماس اسرائیل کے اندر کلو دو کلو میٹر تک گھس گیا اور نہ زمین سے نہ آسمان سے نہ سمندر سے انھیں خبر مل سکی اور وہ گھنٹوں عالم بے خبری میں رہے ۔ڈھائی سو کے قریب لوگوں کو یرغمال بنا کر وہ بھی ٹواور فور وہیلروں پربٹھا کر لے جانا کوئی پل بھر کا کام تو نہیں ۔ان کے پاس نہ ہیلی کاپٹر ہیں نہ طیارے ۔ نتن یاہو انتظامیہ اپنی شرمندگی کو چھپانے کے لئے بے شرمی کے ساتھ بہانے بنا رہا ہے ۔حیرت کی بات یہ ہے کہ ڈھائی سو لوگوں کو لے جا کر سرنگوں میں چھپا دیا گیا اور اندھیری رات میں کالے پہاڑ پر کالی چیونٹی کو دیکھنے کا دعویٰ کرنے والوں کو کوئی خبر نہ ہو سکی۔ اس سے پہلے بھی یہ بڑبولے ۵ سال تک غزہ میں اپنے ایک فوجی خالد شالیط کو ڈھونڈتے رہے تھے۔جب ۵ سال تک سر پٹک پٹک کے تھک گئے تو اپنے ایک فوجی کے بدلے ۱۰۲۷ فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنے پر راضی ہونا پڑا تھا ۔کل ایک مغربی اخبار کا ایک مضمون پڑھنے کا اتفاق ہوا ۔مضمون کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ ممکن ہے کچھ فوجی کامیابی اسرائیل کے کھاتے میں لکھی جائے مگر سب سے بڑا نقصان یہ ہو اکہ آج اسرائیل حفاظت کے بحران security crisis سے جوجھ رہا ہے۔تو حماس کی پہلی کامیابی تو یہ ہے کہ وہ مسئلہ فلسطین جس کو عرب ممالک گزشتہ ۵۰ سالوں سے دھیرے دھیرے مار رہے تھے اس سے جان چھڑانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے تھے اپنی بزدلی کو دنیا سے چھپانے کے لئے ہر ذلت جھیلنے کو تیار ہو رہے تھے اسے حماس نے آن واحد میں روز اول کی طرح دنیا کے سامنے لا کھڑا کیا۔یہ وہ پہلا سبق ہے جو حماس نے مسلم دنیا کو دیا ۔خصوصا ان لوگوں کوجو ملک ہونے کے باوجود ، اربوں کھربوں کے اسلحے خریدنے کے باوجو دلپک لپک کر اسرائیل کے تلوے چاٹ رہے ہیں اللہ تعالیٰ سورہء آل عمران میں غزوہء احد کے پس منظر میں فرماتا ہے ۔’’اگر آج تم زخمی ہوئے ہو تو تمھارے مخالف لوگ بھی پہلے ایسے ہی زخمی ہو چکے ہیں ۔یہ تو زمانے کے نشیب و فراز ہیں جنھیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں ـ‘‘۔اللہ کے اس فرمان سے ہم نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ۱۹۴۸،۱۹۶۷  اور ۱۹۷۳کی شکستوں کے دن گئے۔اب اللہ نے حالات بدل دئے ہیں۔اب تو اللہ چیونٹی سے ہاتھی کو شکست دلوارہا ہے۔اور ہاتھی کی جان بھی یکدم نہیں دھیرے دھیرے تڑپ تڑپ کر نکل رہی ہے ۔مگربات ہمیں نہیں ان عرب ممالک کو سمجھنا چاہئے جن کے پاس مال کی فراوانی ہے ۔ ریگو لر آرمی ہے جو اکثر دنیا کے طاقتور ترین ملک امریکہ کے ساتھ فوجی مشقیں کرتی رہتی ہیں۔جو ہر سال امریکی کمپنیوں سے اربوں کھربوں کے اسلحے خریدتے رہتے ہیں ۔تو ان ممالک کو حماس کا سبق یہ ہے کہ طاقت مال میںنہیں ،فوج اور اس کی مشقوں میں نہیںاربوں کھربوں کے اسلحوں میں نہیں،ایمان میں ہے۔اب عرب ممالک کو ایمان طاقتور بنانا ہے تو حماس سے سیکھیں۔اپنی فوج کو طاقتور بنانا ہے تو حماس کے ساتھ مشقیں کروائیں۔دشمنوں کے ہتھیاروں کا توڑ کرنا ہے تو حماس کی خدمات حاصل کریں۔   حماس کا دوسرا سبق وہ ہے جس کے تعلق سے بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ ہر وہ چیزجو چمکتی ہے جو اسے سونا نہیں کہتے ہے۔برسوں سے اسرائیل کے ایئر ڈفنس سسٹم آئرن ڈوم کا بڑا شور تھا ۔ایسا لگتا ہے کہ یہودی اپنے ہتھیاروں کو larger than life بنانے کے لئے بھی اپنے جھوٹے میڈیا کا استعمال کرتے ہیں ۔آئرن ڈوم اتنا پر اثر نہیں تھا جتنا میڈیا کے ذریعے ہوا کھڑا کیا گیا تھا ۔اس کے علاوہ ہمیں یہ بھی لگتا ہے کہ اللہ نے حماس کو وہ عقل عطا فرمائی جس کے بل پر انھوں نے آئرن ڈوم کو فلاپ کر دیا ۔ یہی حال انھوں نے مرکاوا ٹینک اور بکتر بند گاڑیوں کا بھی کیا ۔انھیں بھی شاید میڈیا کے بل پر معرکتہ الآرا ثابت کیا گیا تھا ۔ایسا کرنے کی سب سے بڑی وجہ ہمیں یہ نظر آتی ہے کہ گراہک ایسے سڑے مال کو بھی خریدنے پر آمادہ ہو جائے۔اسی طرح اسرائیل اسلحوںکا ایک بڑا برآمد کنندہ بنا ہوا تھا۔جو بھی ہو سماں تو یہ باندھا گیا تھا کہ یہ ٹینک یہ بکتر بند گاڑیاں ناقابل شکست ہیں۔اس میں کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں بم یا میزائل مار کے اسے تباہ کیا جا سکے۔مگر معلوم نہیں کیسے حماس نے وہ جگہ یا وہ ترکیب ڈھونڈ لی۔جہاں اور جیسے چند سو ڈالر کے راکٹ مار کر وہ انھیں تباہ کر دیتے ہیں۔اسرائیل کے دشمنوں کو اس پر تحقیق کرنا چاہئے۔مگر ہمارے نزدیک ان کامیابیوں کی وہ اہمیت نہیںجو دنیا کے نزدیک ہے ۔ہمارے نزدیک تو اہمیت ان کی سفارتی کامیابیوں کی ہے ۔ہمارے نزدیک تو اہمیت اس بات کی ہے کہ جب حماس کے اپنے اہل خانہ کے چیتھڑے اڑ رہے تھے تب بھی انھوں نے کوئی قدم اسلامی اصولوں کے خلاف نہ اٹھایا ۔اور یہ اتنی بڑی کامیابی ہے کہ اس کا مقابلہ سوائے دور صحابہ کے کہیں نہیں کیا جا سکتا۔انھوں نے اپنے محروسین کے دلوں میں جو جگہ بنائی ہے اس کا جواب دنیا کا کوئی سپر پاور نہیں پیش کر سکتا۔کمزور اور بے بس کا حسن سلوک کوئی معنی نہیں رکھتا۔ حسن سلوک اس کے ساتھ جو تمھارے قبضہء قدرت میں ہو،معنی رکھتا ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ اس ۵۰ روزہ جنگ میں حماس کے رویے نے کم سے کم ۵۰ سے زائد لوگوں کو مسلمان بنا دیا ہے اور ۵۰ ہزار سے زائد لوگوں کو مطالعہء قرآن پر مجبور کر دیا ہے ۔یہ بھی یقین ہے کہ جنگ تو آج یا کل ختم  ہو ہی جائے گی مگر اسلام کی طرف توجہ کا یہ سلسلہ ختم نہ ہوگا۔مگر ہماری قوم کے نام نہاد دانشوروں کو حماس کی یہ حصولیابیاںشاید نظر نہ آئیں۔انھیں بس غزہ کی ۱۵ ہزار شہادتیں ہی نظر آئیں گی ۔ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ انھیں اس حدیث کے وقوع پذیر ہونے تک زندہ نہ رکھے جس میں کہا گیا ہے کہ ایک شخص کے اگر سو بیٹے ہوں گے تو ۹۹ ہلاک ہو جائیں گے ۔   آخر میں حماس کے لئے چند مشورے۱۔جنگ بندی کی پہلی شرط یہ ہو کہ اسرائیل نے غزہ اور دیگر جگہوں پر جتنی غیر فوجی تنصیبات جیسے اسکول ،اسپتال ،رفیوجی کیمپ، رہائشی عمارتیں تباہ کئے ہیں انھیں از سر نو تعمیر کرکے دے ۔۲۔اسرائیل جو حالت امن میں روزانہ ۵؍۱۰ لوگوں کو کسی نہ کسی بہانے بلکہ بغیر بہانے کے بھی ہلاک کرتا ہے اس پر سختی سے روک لگنا چاہئے۔بصورت دیگر حماس بھی روزانہ کی بنیاد پر ان چیرہ دستیوں کا جواب دے ۔اب دہشت گردی کا الزام حماس سے ہٹ کر اسرائیل پر چلا گیا ہے ۔ اب دنیا کو حماس کے حق دفاع کا خصوصی خیال رکھنا چاہئے ۔۳۔ مسجد اقصیٰ مکمل طور پر فلسطینیوں کے زیر انتظام ہو مگر آس پاس کے علاقوں میں یہودیوں اور عیسائیوں کو بھی اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی کی آزادی ہو جیسی سلطنت عثمانیہ میں تھی۔ہاں مسجد اقصیٰ میں کسی بھی غیر مذہب کے فرد پر داخلے کی پابندی ہو ۔۴۔ آخری تجویز خود ہمیں نا ممکن العمل لگتی ہے مگر پیش کرنے میں حرج بھی نہیں سمجھتے۔اسرائیل کے الیکشن میں عرب مسلمان بھی حصہ لیتے ہیں اور ۴تا ۱۰ نشستیں جیتتے بھی ہیں۔ حماس ان مسلمانوں اور چند یہودیوں کو ملا کر ایک سیاسی پارٹی بنا دے کیونکہ یہودی قیدیوں کے ساتھ حماس کا حسن سلوک ضرور رنگ لائے گا،انشاء اللہ ۔ماضی میں ۴۔۵ سیٹ جیتنے والے یہ مسلمان بادشاہ گر پوزیشن میں بھی ہوتے رہے ہیں۔حماس کی بنائی یہ پارٹی تو زیادہ طاقتور ہو کر ابھرے گی ۔   یہ وہ کم سے کم تجاویز ہیں جن پر عمل لازما ہونا چاہئے۔ورنہ ہم تو جماعت اسلامی پاکستان کے اس موقف کے دل سے حامی ہیں کہ فلسطین میں صرف ایک ریاست ہونا چاہئے ،فلسطینیوں کی۔سلطنت عثمانیہ میں جس طرح یہودی عیسائی اور مسلمان رہتے تھے آئندہ بھی رہ سکتے ہیں۔یہ کتنی بڑی بدقسمتی ہے کہ اسرائیل جس قوم کے دم پر ۷۵ سالوں سے زندہ ہے اسرائیل میں سب سے زیادہ وہی قوم بے بس ہے ۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here