غزہ ویران ہو چکا ہے لبنان کی سڑکوں پر موت کا بسیرا ہے ہر طرف تباہی کے مناظر ہیں جنگ بندی کے امکانات معدوم ہو چکے ہیں

0
10

مشرق وسطی کے سلسلہ سے ہر طرف ایک تشویش ہے غزہ ویران ہو چکا ہے لبنان کی سڑکوں پر موت کا بسیرا ہے ہر طرف تباہی کے مناظر ہیں جنگ بندی کے امکانات معدوم ہو چکے ہیں امریکہ کے حالیہ انتخابات اور اس کے نتیجوں نے معاملات کو اور الجھا کر رکھ دیا ہے ایسے میں ہم نے مشرق وسطی اور خاص کر غزہ و فلسطین میں مزاحمتی محاذ اور اس کے مستقبل کے سلسلہ سے مسجد ایرانیان ( مغل مسجد ) کے پیش امام جناب مولانا سید نجیب الحسن زیدی صاحب سے ایک گفتگو ترتیب دی جسکا ماحصل آ پ کے سامنے ہے ۔

 س: شہید حسن نصر اللہ شہید ہاشم صفی الدین اور یحیی سنوار کے بعد مشرق وسطی کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں ؟

ج : ہمارے یہاں تحریک افراد سے نہیں چلتی فکر و نظریہ سے چلتی ہے افراد کے جانے سے نظریہ ختم نہیں ہوتا بلکہ حصار شہادت میں نظریہ اور مضبوط ہوتا ہے شہید حسن نصر اللہ اور شہید ہاشم صفی الدین پر تو گفتگو پھر کبھی ہوگی تفصیل طلب موضوع ہے فی الحال آپ یحیی سنوار کی شہادت کو دیکھیں اوراس کے بعد دیکھیں کہ خطے میں اس شہادت کے بعد کیا ہوا ؟کیا صہیونی رجیم کو اپنا مقصد حاصل ہو گیا کیا انکے قیدی آزاد ہوکے گھر واپس آ گئے آج آپ سوشل میڈیا پر ایک نظر ڈالیں کل تک جو لوگ سنوار سے واقف نہیں تھے وہ بھی انکی تصویر ڈی پی پر لگائے ہوئے ہیں ہر طرف انکی استقامت وپائداری کے ہر طرف چرچے ہیں اب ایسے لوگ بھی جو پہلے طرح طرح کی باتیں بنا رہے تھے یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ بہت بڑی با ت ہے کہ مزاحمتی محاذ کے رہبر عوام کے ساتھ ساتھ ہیں اور یہ ایک تحریک کی سچائی کی دلیل ہے کہ جس طرح عوام جام شہادت نوش کر رہے ہیں ویسے ہی لیڈران بھی پہلے صہیونی رجیم نے عوام اور رہبروں کے درمیان فاصلہ ڈالنے کی کوشش کی کہ خود تو محفو ظ مقامات پر ہیں عوام کو مرنے کے لئے چھوڑ دیا ہے لیکن پے در پے شہادتوں اس منقی پرو پیگنڈے کے تاروپود کھول کر رکھ دئے حتی عبرانی زبان کے ذرائع نے بھی اس بات پر زور دیا کہ “اسرائیل” میں ہر کوئی اس حقیقت سے حیران رہ گیا تھا کہ ایسے علاقے (غزہ کی پٹی کے جنوب میں) میں حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ یحییٰ سینوار قتل ہوئے جہاں مسلسل صہیونی فوج موجود تھی

ان ذرائع کے مطابق بعض اسرائیلی تجزیہ کاروں نے اس بات پر زور دیا کہ وہ خان یونس یا غزہ کی پٹی کے وسطی صوبے کے محفوظ علاقے میں جا سکتے تھے لیکن رفح میں انکی موجودگی اور صیہونی حکومت کی فوجوں کے ساتھ آمنے سامنے کی لڑائی نے سب کو حیران کر دیا ہے اور سیاسی و عسکری حلقے اس شخص کی ہمت پر حیران ہیں۔ بعض عبرانی زبان کے ذرائع ابلاغ نے بتایا کہ اسرائیلی میڈیا فوجی وردی میں یحییٰ سنوار کی موت کی تصویر شائع کرنے اور اس اعلان سے کہ وہ فوج کی پیادہ دستوں کے ساتھ جھڑپ میں مار ے گئے، غیر مطمئن اور ناراض ہے حقیقت میں دیکھا جائے تو مزاحمتی محاذ کی یہ ایک بڑی کامیابی ہے جس سے اس منصوبے پر پانی پھر گیا کہ سنوار جیسی شخصیت سرنگوں اور اسپتالوں میں چھپتی پھر رہی ہے جس کی وجہ سے عام جانے جا رہی ہیں سچ کہا ہے آیت اللہ جوادی آملی حفظہ اللہ نے کچھ چیزوں کو دھونے کے لئے کچھ چیزیں کی ضرورت ہوتی ہے ، گندگی کو دھونے کے لئے پانی چاہیے زیادہ ہی میل کچیل ہو تو صابن کی ضرورت ہے لیکن کچھ چیزیں وہ ہیں جنہیں بس خون شہادت ہی دھو سکتا ہے ، حقیقت ہے خون شہادت میں بڑی تاثیر ہے اس شہادت نے جو کام کیا ہے وہ ناقابل بیان ہے لاکھوں کے خرچ کے بعد صہیونی رجیم اور بکا و گودی میڈیا نے جو شاخسانہ کھڑا کیا تھا اس خون نے اس پر کاری ضرب لگا کر سچائی کو عیاں کر دیا آج حقیقت سب کے سامنے ہے ۔

 س: حماس کے رہبروں کے قتل کے بعد غزہ کے سلسلہ سے صہیونیوں کا اگلا قدم کیا ہو سکتا ہے ؟

 بہت اہم سوال ہے آج دنیا کی نظریں قائد حریت سیدحسن نصرا للہ کی شہادت کے بعد لبنان کی جنگ پر ہیں زیادہ تر نیوز چینلز پر گفتگو حزب اللہ کی جوابی کاروائیوں اور صہیونیوںپر ممکنہ ایرانی حملوں کو لیکر ہے ، ایسے میں بہت کم ایسے مبصرین اور تجزیہ نگار ہیں جوجبالیا میں ہونے والے قتل عام کو بیان کرتے ہوئے صہیونی رجیم کے پلید عزائم کو برملا کریں ، ایک طرف جہاں ہمیں اس وقت حزب اللہ کی طاقت کا اعتراف کرتے ہوئے ان مجاہدین کے لئے دعاء کرنا ہوگی جنہوں نے اپنے ہر دلعزیز رہبر کے کھو دینے کے بعد بھی اپنے محاذوں کو دشمن کے حوالے نہیں کیا بلکہ ہر زمینی حملے کا منھ توڑ جواب دیا اور صہیونی رجیم کی تمام تر دفاعی دیواروں کو توڑتے ہوئے نیتن یاہو کے گھر تک ۷۰ کلو میٹر کا فاصلہ گنبد آہنیں و دیگر دفاعی سسٹم کو چکمہ دیتے ہوئے طے کیا اور بتا دیا کہ وہ مزاحمتی تحریکیں جو نظریات پر مشتمل ہوتی ہیں اپنے رہبروں کے جانے سے ختم نہیں ہوتیں بلکہ ان میں اور جوش پیدا ہو جاتا ہے ، اس وقت تنہا حزب اللہ کے جیالے ہیں جو دنیا کی سب سے عظیم طاقت کی پوری پشت پناہی میں سب سے زیادہ خونخوار و درندہ حکومت کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں تو جہاں ہمارے لئے ضروری ہے ہم ان کے لئے دعاء کریں وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ عالم اسلام کی غیرت جاگنے کی بھی دعاء کریں کہ کچھ تو ان بے حیاوں کو حیا آئے جنکی بے غیرتی کے سبب صہیونی خونخوار درندے مسلسل مزاحمتی محاذ کے سربراہوں کو نشانہ بنا رہےہیں اور ہر بار پہلے سے زیادہ انہیں نام نہاد سپر پاور کا مکمل سپورٹ حاصل ہوتا ہے اور یہ اسلامی ممالک فلسطین کے شہیدوں کے لئے چند دعائیہ کلمات زبان سے نکالنے کے لئے بھی عاجز ہیں حمایت تو دور کی بات ہے ۔آج دنیا دیکھ رہی ہے مزاحمتی محاذ کے ساتھ وہی لوگ کھڑےہیں جو حیدر کرار کے مانننے والے ہیں ، حال ہی میں استقامت کو پائداری کی مثال شہید یححی سنوار کو دیکھ لیں جنہوں نے مظلومانہ شہادت سے کافی قبل ایک انڑویو میں کہا تھا کہ ہماری اگر کوئی دامے درہمے سخنے مدد کر رہا ہے تو وہ اسلامی جمہوریہ ایران ہے اس کے بعد بھی تعصب کی آگ میں جلنے والے اسلامی جمہوریہ ہی کو نشانہ بنا رہے ہیں یہ افسوس کی بات ہے جہاں تک صہیونی رجیم کے اگلے قدم کی بات ہے تو یہ ایک گھناونا منصوبہ لیکر آگے بڑھ رہی ہے آج اس بات کے تجزیہ کی ضرورت ہے صہیونی رجیم کس طرح شاطر اندازمیں اپنے منصوبوںکو عملی کر رہی ہے عالمی میڈیا میں حال ہی میں ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جو اس لحاظ سے قابل غور ہے کہ صہیونی کس پلید منصوبے کو آگے بڑھا رہے ہیں ’’جرنیلوں کا منصوبہ ’’نامی اس رپورٹ میں اس بات کو بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ شمالی غزہ کو بفر زون میں تبدیل کرنے کی سازش ہے کے پس منظر میں کیا ہے

 اس رپورٹ کے مطابق اکتوبر 2024 کے آغاز میں ، صہیونی فوج نے غزہ کی پٹی کے شمال کو ایک بفر ز اور فوجی زون میں تبدیل کرنے کے لیے سرکاری طور پر “جنرل پلان” کے نام سے ایک منصوبے کی نقاب کشائی کی ہے۔

قابل غور ہے کہ 5 اکتوبر سے صیہونی فوج نے غزہ کی پٹی کے شمال میں ایک نیا زمینی فوجی آپریشن شروع کیا ہے۔ اس سلسلے میں صیہونیوں نے بیت حنون، بیت لاہیا، پناہ گزین کیمپ اور جبالیہ بستی میں مقیم فلسطینیوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان علاقوں سے مکمل طور پر نکل جانے کو کہا ہے۔ اس پلان کے تحت صہیونی رجیم کا منصوبہ پورے علاقے پر اپنا قبضہ کر کے یہاں پہلے فوجی مراکز قائم کرنا پھر بستیاں قائم کرنا ہے اس منحوس پلان کے عملی ہونے میں جو چیز سب سے زیادہ رکاوٹ بن رہی ہے وہ مسلسل حزب اللہ کی جانب سے صہیونی علاقوں پر حملوں کا ہونا ہے وہ بھی اتنے سٹیک کے ڈرون ۷۰ کلو میٹر کا راستہ طے کر کے سیدھا اسی کمرے سے ٹکراتا ہے جو نیتن یاہو کے سونے کا کمرہ ہے یہ اپنے آپ میں کم کامیابی نہیں ہے کہ ٹکلنالوجی کہ عمر و بن عبد ود کے سامنے حیدار کرار کے جیالے اس طرح سے ہنر نمائی کریں یہی وجہ ہے کہ اس وقت صہیونی رجیم نے لبنان کو ہوائی حملوں سے بری طرح نشانہ بنا رکھا ہے ادھر صہیونی رجیم یوں ہی جبالیہ پر اندھا دھند حملے نہیں کر رہی ہے جبکہ اسے پتہ ہے کہ عام شہری بری طرح مارے جا رہے ہیں اور پوری دنیا دیکھ رہی ہے کہ کس طرح عوام کو نشانہ بنایا جا رہا ہے عوام کو خاص کر ٹارگٹ کرنا ایک سیاسی و عسکری حکمت عملی کے تحت ہے کہ شمال کا یہ علاقہ عوام خود غیر محفوظ سمجھ کر چھوڑ دیں یہی سبب ہے کہ ایک خطرناک منصوبہ لیکر صہیونی فوج غزہ پٹی میں مظالم کے پہاڑ توڑ رہی ہے اور عالم اسلام تماشائی ہے ، روز نامہ ان دنوں کے پلیٹ فارم سے ہماری سبھی سے گزارش ہے کہ غزہ و لبنان کے مجاہدین کے لئے خاص طور پر دعاء کریں اور جو بھی تعاون ہو سکتا ہو ان مظلومین کے لئے انجام دیں جنکی نگاہیں ہماری طرف ہیں کمترین تعاون حق کو حق کہنے کی جرات ہے جس پر دشمن قدغن لگانا چاہتا ہے ۔

س: آپ نے جنرل پلان کی بات کی اس سلسلہ سے کچھ مزید وضاحت کریں گے ؟

 ج : صہیونی رجیم کے اس جنرل پلان میں چند اہم نکات ہیں

۱۔ صہیونی فوج نے اس علاقے میں انسانی امداد کی منتقلی کا عمل فوری طور پر روک دیا تاکہ ان علاقوں کے مکینوں کو غزہ کی پٹی کے شمال میں بھوک اور قحط کی صورت میں اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا جا سکے۔ اکثر تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ نئی صہیونی کارروائی کا اصل ہدف غزہ کی پٹی کے شمال میں بعض مزاحمتی صلاحیتوں کی موجودگی ہے جو اب بھی بیت لحیہ، جبالیہ اور الطفاح قصبوں میں صیہونی افواج کے خلاف برسرپیکار ہیں۔

درحقیقت اگر غزہ کے تمام علاقوں میں جنگ جاری رہتی ہے تو صہیونی حکام فلسطینی مزاحمتی گروہوں پر کسی فوجی اور تزویراتی فتح کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔ اسی لئے وہ چاہتے ہیں کہ اس علاقے کو ایک بفر زون میں تبدیل کر دیں

۲۔ حال ہی میں، ریٹائرڈ اسرائیلی جنرل جیورا جزیرہ Knesset نے خارجہ امور اور دفاعی کمیٹی کے اجلاس میں شمالی غزہ کی پٹی پر مکمل کنٹرول کے لیے “جنرل پلان” تجویز کیا۔ اس منصوبے میں ایلینڈ نے نیٹصارم کے شمالی محور سے فلسطینیوں کو مکمل طور پر بے دخل کرنے اور اس علاقے میں ہر حرکت کرنے والے کو نشانہ بنانے پر زور دیا تاکہ فلسطینی پورا علاقہ خالی کر کے کوچ کر جائیں

۳۔ اس پلان کے مطابق شہریوں کے انخلا کا حکم دینے کے بعد، اس علاقے میں تمام افراد، عمارتیں اور ہر قسم کا بنیادی ڈھانچہ “جائز فوجی اہداف ” قرار پائیں گے ۔ اس منصوبے سے اسرائیل حماس کے ہاتھ سے زمین چھین لے گا نتیجتاً، مزاحمتی گروہ ہتھیار ڈالنے اور شکست کھانے کے دہانے پر ہوں گے ۔

۴۔ صیہونی حکومت کے وزیر اعظم من نیتن یاہو نے اعلان کیا کہ ان بیانات کو کنیسیٹ کمیٹی میں پیش کیے جانے کے ایک ہفتے بعد وہ ان کی سنجیدگی سے تحقیقات کریں گے۔ نیتن یاہو کو صیہونی آباد کاروں کے ساتھ اپنی سیاسی شبیہ کو مستحکم کرنے کے لیے غزہ کی پٹی میں فوجی فتح دکھانے کی اشد ضرورت ہے اور دوسری جانب جنوبی لبنان میں صہیونی حکومت کی فوج کی جارحانہ کارروائی نے اسرائیل کے وزیر اعظم پر کافی دباؤ ڈالا ہے۔ . چونکہ صہیونی فوج کی زیادہ تر صلاحیتیں اور صلاحیتیں شمالی محاذ کی طرف ہیں اور غزہ کے مختلف علاقوں میں لڑائی جاری ہے، اس لیے صیہونی لبنان میں حزب اللہ کے ساتھ مزید یونٹس کو میدان جنگ میں منتقل نہیں کر سکتے جبکہ حزب اللہ کے حملے مسلسل جاری ہیں

۵۔ علاوہ غزہ کی جنگ کو گزرے ہوئے ایک سال کے دوران اس پٹی کے بعض علاقوں میں کئی بار تنازعات کے تکرار کے عمل سے انکے درمیان یہ تاثر ابھرا ہے کہ اسرائیلی فوج کے لیے اس علاقے پر مکمل تسلط حاصل کرنا ممکن نہیں ہے اسی لئے جنرلوں نے مل کر یہ پلان بنایا ہے کہ سب سے پہلے، اس علاقے سے لوگوں کی مکمل بے دخلی ہو جس سے صیہونیوں کو یہ امکان فراہم ہوکہ وہ اسے ایک بفر اور فوجی علاقے میں تبدیل کر دیں اور جنگ کے بعد بھی وہ اس علاقے کو اپنے کنٹرول میں رکھیں گے، جیسا کہ بعض حکومتی اہلکاروں کا دعوی ہے کہ کہ وہ اپنے اسی ایجنڈے کے تحت “7 اکتوبر 2023 کے حملے کے معاوضے کے طور پر غزہ کے ایک علاقے پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں”۔

۶ ۔ اس منصوبے کی ایک اور نمایاں خصوصیت تنازعات کا قطعی خاتمہ اور غزہ کے شمالی محاذ پر لگی آگ کو بجھانا ہے اور خطے پر قبضہ جمانا ہے جنگ کو گزرے ہوئے مہینوں کے دوران اسرائیلی فوج 6 سے زائد مرتبہ غزہ کی پٹی کے بعض علاقوں کو فتح کر چکی ہے لیکن ہر بار مزاحمتی قوتوں نے تھوڑی دیر بعد اس علاقے میں جنگی محاذ کو دوبارہ متحرک کردیا کیا ہے۔

 ۷ ۔ بنیادی طور پر پیچھے ہٹ کر پھر حملہ کرنے کا یہ عمل حماس کی جنگی حکمت عملیوں میں سے ایک ہے جس کے سبب بار بار تصادم کے مقام کو تبدیل نے اور سرنگوں کے ذریعے پچھلے علاقوں میں واپس آ کر پھر سے حملہ کرنے سے قابض فوج کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے اور فوجی تصادم کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری رہتا اور یہی حماس کی حکمت عملی ہے ۔

س: اس پلان کے لئے شمالی غزہ ہی کیوں؟

ج : اس علاقے کو غیر آباد فوجی بفر زون بننے کے لیے منتخب کرنے کی کئی وجوہات ہیں:

اہم صہیونی مقامات سے نزدیکی:

 یہ دیکھتے ہوئے کہ شمالی غزہ اسرائیل کے زیر کنٹرول اسٹریٹجک مقامات کے قریب ہے، جیسے کہ اشکلون کی بندرگاہ۔ غزہ کے شمالی ساحل پر کنٹرول اسرائیل کو جنوب میں خاص طور پر گیس کے بنیادی ڈھانچے کے علاقے میں زیادہ تحفظ فراہم کرنے کا سبب ہو سکتا ہے

غزہ کو سیاسی طاقت کے مرکز سے الگ کرنا:

 اسرائیل غزہ کو (جو فلسطینیوں کا انتظامی مرکز اور سیاسی طاقت کا گڑ ہے اسے اس پٹی کے دیگر حصوں سے الگ کرنا چاہتا ہےتاکہ فلسطینیوں کی اصل طاقت کو دبایا جا سکے ۔

سماجی خدمات اور بنیادی ڈھانچہ: غزہ شہر کو سماجی اور صحت کی خدمات کا ایک بڑا مرکز سمجھا جاتا ہے، جہاں غزہ کا مرکزی ہسپتال (الشفاء میڈیکل کمپلیکس) اور بہت سی یونیورسٹیاں واقع ہیں۔ اس شہر پر صہینیوں کے قبضے کی بنا پر فلسطینی معاشرے پر گہرے سماجی اثرات مرتب ہوں گے۔

سلامتی کی صورتحال: غزہ کی پٹی کا شمالی علاقہ بھی سلامتی وسیکورٹی کے نقطہ نظر سے اسرائیل کے لیے بہت اہم ہے۔ اس علاقے میں جبالیہ پناہ گزین کیمپ بھی ہے جو کہ فلسطین کا سب سے بڑا کیمپ سمجھا جاتا ہے اور صیہونیوں کے خلاف بغاوتوں اور مزاحمت کی تاریخ ایک رکھتا ہے۔

 یہی وجہ ہے کہ اس سے پہلے کہ ” یہ منصوبہ” ایک سرکاری پالیسی کے طور پر عملی ہو، اسرائیلی فوج نے پہلے ہی شمالی غزہ پر مزید کنٹرول حاصل کرنا شروع کر دیا ہے ۔ نومبر 2023 سے ہی ، اسرائیل نے “نیٹصارم کوریڈور” کی تخلیق کو اپنے ایجنڈے میں رکھا تھا زمین کی یہ پٹی شمالی غزہ کو وسطی اور جنوبی حصوں سے الگ کرتی ہے۔

یہ محور، جو 4 کلومیٹر (2.5 میل) چوڑا ہے، قابض فوج کے لیے حکمت عملی اور رسد کے لحاظ سے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ دوسری چیزوں کے علاوہ صہیونیوں کے لیے اس محور کے ذریعے اسرائیلی افواج کی منتقلی اور انسانی امداد کے عمل کی نگرانی ممکن ہے۔

انسانی اور سماجی نتائج:

گزشتہ ایک سال کے دوران تل ابیب نے بارہا شمالی غزہ کے لیے انخلاء کے احکامات جاری کیے اور انسانی امداد کی رسائی کو کم کرکے اور بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرکے غزہ کی پٹی کے اس علاقے میں باقی ماندہ آبادی کو کم کرنے کی کوشش کی۔ صہیونی منظم طریقے سے رہائشی عمارتوں اور اسکولوں کو بھی نشانہ بناتے رہے ہیں جنہیں پناہ گاہوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے ۔ مجموعی طور پر اس وقت ، شمالی غزہ میں اب بھی رہنے والے لوگوں کی تعداد 400,000 بتائی گئی ہے، جبکہ جنگ سے پہلے یہ تعداد 1.1 ملین تھی۔

جنرلوں کے اس پلان میں فلسطینیوں کو شمالی غزہ چھوڑنے پر مجبور کرنے کے لیے ان اقدامات کو تیز کرنا شامل ہے۔ علاقے کوفلسطینیوں سے صاف کرنے کے بعد اسرائیلی فوج اسے بند ملٹری زون قرار دے گی، اور پھر فلسطینیوں کی ان کے گھروں اور زمین تک رسائی محدود کر دی جائے گی۔

اگر اسرائیل جنوب میں رفح کا کنٹرول برقرار رکھتا ہے، تو وہ مؤثر طریقے سے غزہ کی زیادہ تر آبادی کو مرکز یا ساحل کے ساتھ ایک گنجان آباد علاقے تک محدود کر دے گا، جس سے فلسطینیوں کے لیے زندگی انتہائی مشکل ہو جائے گی۔ یہ حکمت عملی کچھ آبادی کو غزہ چھوڑنے پر مجبور کر سکتی ہے۔ داخلی سلامتی کے انتہا پسند وزیر، Itmar Benguir نے بارہا ایسی پالیسیوں پر زور دیا ہے جو فلسطینیوں کو اس طرف لے جائیں جسے یہ لوگ “رضاکارانہ ہجرت” کے نام سے جان بوجھ لوگوں کے درمیان پیش کر رہے ہیں اور ایسے موافق حالات بنا رہے ہیں کہ لوگ اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں ۔ مجموعی طور پر غزہ ایک خطرناک بحران کے دہانے پر ہے ملک و قوم و خطے سے ماوراء ہم سب کو مل کر ایک منصوبہ بند نسل کشی کی مخالفت کرنا ہوگی یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے یہ کسی ایک خطے یا ملک کا مسئلہ نہیں ہے انسانیت کا مسئلہ ہے ۔

روز نامہ ان دنوں سے بات کرنے کے لئے آپ کا شکریہ

 ج: میں روز نامہ ان دنوں کا خاص طور پر شکریہ ادار کرتا ہوں کہ جہان اردو میں روز نامہ ان دنوں حریت پسندوں کی آواز بنا ہوا ہے ان موضوعات کو کور رہا ہے جس کو چھیڑنے عام طور پر اخبارات کنارہ کشی اختیار کرتےہیں ، میں روز نامہ ان دنوں کے ایڈیٹر جناب عالم رضوی کا خاص طور پر شکر گزار ہوں کہ آپ نے موقع دیا کہ اپنے خیالات کا اظہار ہم کھلے دل کے ساتھ کر سکیں

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here