انٹر نیشنل ہیومن رائٹس کے صدر حضرت صابر نورانی (مدنی دربار) نے امت مسلمہ مساجد سے اپنا رشتہ استوار رکھیں…….!!!!
مالیگاؤں :(نامہ نگار) جی ہاں عید الفطر گزرنے کے جانے کے بعد بھی ہماری مساجد کھلی رہے گی.پنج وقتہ اذانیں گونجتی رہے گی. کیونکہ فی الوقت امت مسلمہ رمضان المبارک کی تیس روزہ عبادت کی تھکن اتارنے میں میں مصروف ہے.انٹر نیشنل ہیومن رائٹس کے صدر حضرت صابر نورانی (مدنی دربار) نے امت مسلمہ کو بیدار کرتے ہوئے کہا کہ امت مسلمہ کا عید الفطر جیسا عظیم ترین تہوار سال بہ سال خوشیوں کی سوغات لئے آتا ہے اور آتا رہے گا کیونکہ عید کے معانی ہی بار بار آنے کے ہیں .کہنے کو تو عید الفطر اور عید سعید جیسے تہوار کو رمضان المبارک کے روزوں کا انعام بھی کہا گیا ہے. امت مسلمہ رمضان المبارک کے مکمل ایک مہینے میں مساجد و مدارس سے اپنا رشتہ اس طرح استوار کر لیا کرتی ہے کہ عبادت ریاضت اور تلاوت کے علاوہ اسے کوئی دوسری فکر دامن گیر نہ ہوا کرتی ہے. پنج وقتہ نمازوں کا اہتمام سحری و افطار کا اہتمام تلاوت و ریاضت کا التزام اور غروب آفتاب کے بعد تراویح کا اہتمام کرتے ہوئے اس ماہ مبارک میں قران کریم کی آیات مقدسہ کو رقت آمیز لحن داؤدی میں اس طرح سماعتوں کی زینت بنانا کہ بصیرت و بصارت کے تمام در دریچے وا ہو کر اللہ رب العزت کی کبریائی کرنے پر مجبور ہو جائیں. کہتے ہیں کہ زمانہ تغیر و تبدل کا شائق رہا کرتا ہے .ہر دور اپنے ہمراہ نت نئے پیرہن اور انداز و اطوار لئے اس طرح وارد ہوا کرتا ہے کہ زندگی کے طور طریقے رہن سہن بدل جاتے ہیں. تغیر و تبدل سے لبریز آج کا زمانہ بھی تبدیلی کی لہروں میں بہتا ہوا اتنی دور نکل گیا ہے کہ روایات پارینہ گم کردہ منزلوں کی طرح بصارتوں سے اوجھل ہوئی جاتی ہے.رمضان المبارک کے جاتے ہی آج نا تو وہ تقدس میں ڈوبی ہوئی نمازوں کا اہتمام باقی ہے نا ہی تلاوت کا اہتمام. بدلتے زمانوں نے اسلاف کی تمام محترم و معتبر روایتوں پر ترقی پسندی اور جدیدیت کے وہ دبیز گرد و غبار کے بادل پھیلا دیئے ہیں کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا. غزہ میں معصوم فلسطینیوں کا لہو بہایا جارہا ہے. ان کے آباد مامن و مسکن کو ملبے کا ڈھیر بنایا جارہا ہے.اور ایک ہم ہیں کہ اس کے باوجود خواب غفلت سے بیدار ہونے کو تیار نہیں. رمضان المبارک کے جاتے ہی ہم نے مساجد سے رشتہ منقطع کر لیا. عبادت ریاضت اور تلاوت سے غفلت اخیتار کر لی. گناہوں اور خرافات کی دلدل ہمارا مقدر ہونے کو ہے.جبکہ مساجد اب بھی کھلی ہوئی ہیں. ہمارے سنگین حالات ہمیں دعوت فکر دیتے ہوئے مساجد کو آباد کو رکھنے کے متلاشی ہیں مگر افسوس ہماری آنکھوں پر پڑے ہوئے دبیز پردے ہٹنے کو تیار نہیں. اغیار کے پھینکے ہوئے قرض کے ٹکڑوں پر عیش و عشرت کی زندگی گزارنے والے ہم نے عبادت ریاضت تلاوت قناعت اور زہد و تقویٰ فراموش کردیا ہے. یہ الگ بات کہ “نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں “آج نگاہ مرد مومن میں وہ تب و تاب نہ رہی. تقدیریں درخشاں ہونے کو تیار نہیں. اسلاف کی تنویریں بجھ کر رہ گئی ہیں. زخم زخم ہستی کا مداوا کوئی نہیں.