راہل گاندھی : رکنیت کی منسوخی اور اپوزیشن کا اتحاد

0
2

نہال صغیر

راہل گاندھی کو سورت کے ایک کورٹ سے ڈرامائی انداز میں ہتک عزت معاملہ میں دو سال کی سزا سنائے جانے کے دوسرے دن لوک سبھا سے ان کی رکنیت بھی ختم کردی گئی ۔ڈرامائی انداز اس لئے کہ معاملہ گرچہ چار سال پرانا ہے مگر فیصلہ تین چار دنوں کے اندر سنادیا گیا ۔ ویسے بی جے پی راہل گاندھی سے معافی کا مطالبہ کررہی تھی اور یہ مطالبہ لندن میں دیئے گئے بیان پر تھا کہ بھارت میں جمہوریت کمزور ہورہی ہے اور موجودہ حکومت آئینی و عوامی اداروں کو کمزور کررہی ہے یا قبضہ کررہی ہے ۔ راہل نے جو کچھ کہا تھا اس کا مشاہدہ ہم سب ہم اپنی کھلی آنکھوں سے کررہے ہیں۔ بی جے پی کے معافی کے مطالبہ کو کوئی خاص پذیرائی نہیں مل رہی تھی اس لئے انتقام کی آگ میں جل رہی بی جے پی کو ایس امعاملہ چاہئے تھا جس سے وہ فوری ردعمل کا اظہار کرسکے نیز ایسا کچھ ہو کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی کی ضرورت بھی نہ پڑے۔ اس لئے سورت والے معاملہ میں اس نے اپنے لئے نجات کی راہ ڈھونڈ لی اور راہل کو سزا دلا کر لوک سبھا سے بھی آئوٹ کردیا ۔ حالانکہ بی جے پی والے بڑی معصومیت سے کہہ دیتے ہیں ہمیں کیوں کوس رہے ہو یہ قانون کا معاملہ ہے جو بھی ہوا قانون کے مطابق ہوا، اس میں ہم کیا کرسکتے ہیں۔ لیکن یہ بات تو اب یہاں کے عوام سمجھنے ہی لگے ہوں گے کہ ضلع کورٹ وغیرہ کے جج کس دبائو یا کس کے مشورہ سے فیصلہ کرتے ہیں ۔ اب تو سپریم کورٹ کے فیصلوں پر بھی سوال اٹھنے لگے ہیں اور لوگ کھلے عام ججوں کو نشانہ بنانے لگے ہیں۔موجودہ چیف جسٹس چندر چوڑ اس خامی کو پورا کرنے کی کوشش میں ہیں لیکن کب تک ؟ ان کے بعد دوسرے چیف جسٹس آئیں گے حکومت ان کواپنے دبائو میں لے کر فیصلے کرائے گی اور اگر ایسا نہیں ہوا تو یہ بھارتی عوام کی خوش قسمتی ہوگی۔بی جے پی اپوزیشن کے معاملہ میں جتنی متحرک ہوتی ہے خود کے معاملہ میں اتنی سست نظر آتی ہے ۔ اول تو بی جے پی اپنے کیخلاف معاملہ پر خاموشی برتتی ہے ، اتنی خاموشی جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو اور وزیر اعظم کے کانوں پر تو خیر جوں تک نہیں رینگتی ۔ امید ہے اسی طرح خاموش رہے تو کسی دن جھوٹ بولنے کےمعاملہ کے ساتھ ہی خاموشی میں بھی نوبل کی دوڑ میں شامل ہوسکتے ہیں ۔ بہر حال راہل گاندھی کی لوک سبھا کی رکنیت کی منسوخی کے بعد ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا ہے ،اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ یہ احتجاج کا طوفان کتنے دنوں تک گرم رہتا ہے ۔ابھی یہ خبر بھی گردش کررہی ہے کہ لوک سبھا میں پچاس فیصد ارکان جرائم کے ریکارڈ والے ہیں اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ان میں اکثریت کس کی ہے ۔ موجودہ حکومت کے دور میں تواتر کے ساتھ ایسا ہورہا ہے کہ انکم ٹیکس ، ای ڈی اور سی بی آئی کے افسران کا رخ حزب اختلاف کے ارکان کے گھروں اور دفتروں کی جانب ہے ۔ لیکن انہی میں سے کوئی بی جے پی سے منسلک ہوجائے تو پھر بڑے سکون کے ساتھ سوتا ہے جیسا کہ بی جے پی ایک رکن نے اسی طرح کی بات کی تھی ۔ حالیہ دنوں میں شمال کی ریاستوں میں ہوئے الیکشن کے بعد بی جے پی ایسی حکومت میں شامل ہوئی جس کے لیڈر کے بارے میں بی جے پی کی اعلیٰ قیادت اسے بدعنوان کہتی تھی اور اس سے وہاں کے عوام کو نجات دلانے کی بات کرتی تھی ۔ تعجب اس بات پر ہے کہ اپوزیشن اس کے اس دوغلے پن کو بھی عوام کے سامنے رکھنے میں ناکام رہی ۔ایک طرف مودی اور شاہ کی جوڑی شاطرانہ طریقے سے الیکشن کے بعد اکثریت نہیں ہوتے ہوئے بھی جوڑ توڑ کرکے حکومت پر قبضہ کررہی ہے تو دوسری جانب سرکاری ایجنسیوں کا استعمال کرکے مخالفین کو خاموش کرارہی ہے ۔مگر وہیں یہ جوڑی کچھ ایسی غلطیاں کررہی ہے جو بھارتی عوام کے حق میں جائے گا ۔لوگ مودی اور شاہ کے تعلق سے کچھ بھی کہیں لیکن ایک بات تو طے ہے کہ انہیں ووٹوں کے حصول سے زیادہ کسی میں بھی دلچسپی نہیں ہے ۔ یہ دلچسپی بہت ہی پرجوش ہے اور عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جوش میں لوگ ہوش کھو دیتے ہیں ۔ یہ بھی غلطیوں پر غلطیاں کئے جارہے ہیں لیکن الیکشن میں جیت مل رہی ہے اس لئے ان غلطیوں کا احساس نہیں ہورہا ہے ۔ غور کیجئے کہ راہل کو سزا دلوانے کے بعد لوک سبھا کی رکنیت سے برخواست کئے جانے کے بعد عوامی ہمدردی کس کے حق میں جائے گی ۔اپوزیشن کو بیٹھے بٹھائے ایک اہم ایشو مل گیا، اس ایشو نے اپوزیشن کو بہت حد تک متحد بھی کردیا ہے ۔ اگر اپوزیشن کا یہ اتحاد تادیر قائم رہنے والا اتحاد ثابت ہوا تو بی جے پی کیلئے یہ مرحلہ مایوس کن ثابت ہوگا اور جتنی تیزی کے ساتھ یہ عروج پر گئے ہیں اسی تیزی کے ساتھ ان کا زوال بھی طے ہے ۔ اصل میں راہل والے معاملے پر اپوزیشن متحد ہورہی ہے ، اس طرح کا معاملہ اعظم خان اور ان کے بیٹے کے ساتھ بھی ہوچکا ہے ۔ اس وقت کوئی سخت احتجاجی آواز نہیں اٹھی ۔ کہیں سے بس سادہ سا بیان آگیا ، اس سے آگے اگر ان کی حمایت میں اپوزیشن نے اتحاد کا مظاہرہ کیا ہوتا تو آج راہل گاندھی کے ساتھ یہ سب کچھ نہیں ہوتا ۔موجودہ حکومت اپنے مخالفین کو ٹھکانے لگانے کیلئے ایسی ایسی حرکتیں کررہی ہے کہ اگر اپوزیشن میں سوجھ بوجھ ہوتی تو کب کا بی جے پی اپنی اوقات پر آجاتی لیکن اپوزیشن نے بار بار موقع کھویا ہے ۔ اس کا انجام وہ بھگت رہے ہیں ۔ کہتے ہیں مشکل حالات میں ہی قوت مزاحمت میں اضافہ ہوتا ہے ۔ مودی حکومت کے جبر نے بہت سے لیڈر پیدا کردیا ہے جو مستقبل قریب میں خود ہی حکومت کیلئے درد سر بن جائیں گے ۔ ہم نے مانا کہ ان میں سے سیکڑوں نوجوانوں کو جیلوں میں قید کیا ہوا ہے لیکن آخر کب تک انہیں حراست میں رکھا جاسکتا ہے ۔ایک نہ ایک دن تو انہیں رہا کرنا ہی پڑے گا ۔ اگر راہل کیخلاف اس طرح کی انتقامی کارروائی نہیں کی جاتی تو کوئ ی وجہ نہیں تھی کہ آج راہل کی حمایت میں کیجریوال اور ممتا سامنے آتیں ۔ ویسے تو اب بی جے پی یا موجودہ حکومت کو اب ہوش کے ناخن لے لینا چاہئے لیکن اگر اب بھی ہوش میں نہیں آئے تو عنقریب ۲۰۲۴ یقینی طور سے انہیں سبق سکھا دے گا ۔ لیکن یہ سبق سکھانے یا موجودہ سیاسی منظر نامہ کی تبدیلی کیلئے ضروری ہے کہ اپوزیشن متحد ہوکر ایسا لائحہ عمل تیار کرے جو بی جے پی کے فرضی وطن پرستی کا جواب ہو۔ کانگریس کے نرم ہندوتوا اور دیگر پارٹیوں کی خوف کی نفسیات بی جے پی کیلئے سیاسی غذا کی حیثیت اختیار کرگئی ہے ۔سب سے زیادہ اہم مسئلہ ریجنل پارٹیوں کا ہے جسے بی جے پی بے اثر کرکے ختم کردینا چاہتی ہے ۔ اس نے ایسے لیڈروں کو اپنے ساتھ شامل کرلیا ہے جنہوں نے ہندوئوں کے پسماندہ طبقات کے ووٹ کو اپنے حق میں کرلیا ہے یا انہیں اتنا تقسیم کردیا ہے کہ وہ بے حیثیت ہو گئے ہیں ۔ اب جو بی جے پی اور آر ایس ایس کا بیانیہ آرہا ہے اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ مسلم ووٹ پر بھی شب خون مارنے والے ہیں اور اس کیلئے انہوں نے زمینی سطح پر کام بھی شروع کردیا ہے۔آج بھی اپوزیشن میں کوئی زیادہ دم خم دکھائی نہیں دے رہا ہے ، اگر اس میں دم ہوتا تو بقول لال بہادر شاستری کے پوتے وبھاکر شاستری کے’’ اگر میں لوک سبھا یا راجیہ سبھا کا رکن ہوتا تو آج راہل گاندھی احترام میں استعفیٰ دے دیتا‘‘۔ حقیقت میں اپوزیشن کو ایسا ہی کرنا چاہئے ، ان لوگوں کو بیک وقت اجتماعی طور سے استعفیٰ پیش کردینا چاہئے تھا ۔ ان کے اس قدم سے مودی حکومت سخت دبائو میں آجاتی ۔ راہل گاندھی معاملہ سے ٹوئٹر پر بھی سخت ردعمل اور جوابی ردعمل دیکھنے کو مل رہا ہے بی جے پی کی ٹرول آرمی بھی دو روپئے معاوضہ کے عوض پِلی پڑی ہے مگر پلڑا مخالفین کا بھاری نظر آرہا ہے ۔ ایک پرجوش او بی سی نوجوان صارف پریانشو کشواہا نے ٹوئٹر پر لمبی تحریر شیئر کی جس میں اس نے لکھا کہ آپ لوگوں کی خاموشی اب لعنت کا روپ لے رہی ہے ۔ اسی کے ساتھ اس نے اقدامی کارروائی کی اپیل کرتے ہوئے ایک جگہ لکھا’’بہار، جھارکھنڈ، چھتیس گڑھ، راجستھان، تلنگانہ، بنگال، تامل ناڈو، کیرالہ، ہماچل کے تخت پر بیٹھی حکومتیں آپ کے خیالات کی نمائندگی کر رہی ہیں‘‘۔یعنی ان ریاستوں میں بی جے پی مخالف حکومتیں ہیں ، وہاں سے تو بی جے پی کو چیلنج کرسکتے ہیں نا ان کے بدزبان اور بدتمیز کارکنوں اور لیڈروں کو قانون کے مطابق سبق سکھا سکتے ہیں نا۔ دیکھا یہی گیا ہے کہ اپوزیشن کی ریاستوں سے بھی بی جے پی کیخلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی ۔ ہم سمجھ رہے ہیں کہ یہ کارروائی کیوں نہیں ہوتی ۔ سوشل میڈیا پر سی بی آئی اور ای ڈی پر طرح طرح کے لطیفے اور کارٹونوں کی باڑھ آئی ہوئی ہے ۔ ایک کارٹون میں ایک شخص کو پھانسی دی جارہی ہے مگر وہ اسی وقت کہتا ہے کہ میں بی جے پی میں شامل ہونے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے ، اسے چھوڑ دیا جاتا ہے اور ایک افسر کہتا ہے تم نے پہلے کیوں نہیں بتایا کہ تم بے گناہ ہو۔ اسی طرح ایک کارٹون میں سی بی آئی اور ای ڈی کے افسران سے بھری ہوئی کارکا ڈرائیور بی جے پی کے بورڈ کی طرف اشارہ کرتا ہے لیکن اسے کہا جاتا ہے کہ اس طرف دیکھنا بھی نہیں ۔ مرکزی حکومت نے سرکاری ایجنسیوں کے ذریعہ سب کی لسٹنگ کررکھی ہے کہ کس نے کب کتنی بدعنوانی کی تھی اس لئے جب کوئی مخالف سمت میں چلنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کیخلاف حکومت کا طوطا یعنی سی بی آئی اور ای ڈی متحرک ہوجاتے ہیں۔لیکن خطرات مول لینا ہی پڑے گا اگر آپ کو خود کو بچانا ہے ۔ یونہی سرجھکا کر چند الفاظ مذمت کے ادا کرکے کچھ نہیں ہونے والا ہے ۔ ایک دن آئے گا کہ کوئی نہیں بچے گا اور ملک میں ایک خاص طبقہ دندناتا پھرے گا اور پورے ملک کو خوف و دہشت کے حوالے کردے گا ۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here