راجستھان میں انتخابی عمل مکمل ‘۳؍دسمبر کو نتائج

0
4

چنائو سروے میں کانگریس نے بی جے پی کو پھر پٹخنی دی۔۳؍دسمبر کو ہی مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، میزورم اور تلنگانہ کے نتائج کا بھی اعلان

نئی دہلی:راجستھان میں آج ۱۹۹؍؍ سیٹوں کیلئے ۶۸؍ فیصد پولنگ ہو ئی ۔ راجستھان کے ساتھ ہی ووٹوں کی گنتی ۳؍دسمبر کو مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، میزورم اور تلنگانہ کے ساتھ ہوگی۔ راجستھان میں دسمبر ۲۰۱۸ء میں ہوئے آخری اسمبلی انتخابات میں کانگریس نے جیت حاصل کی اور ریاستی حکومت تشکیل دی، اشوک گہلوت کو وزیر اعلیٰ کے عہدے پر لایا گیا تھا۔۲۰۱۸ء کے راجستھان انتخابات حکومت مخالف جذبات کی عکاسی کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں اس وقت کی وزیر اعلیٰ وسندھرا راجے کی قیادت میں بی جے پی کو ہٹا دیا گیا تھا۔ راجستھان قانون ساز اسمبلی کی موجودہ میعاد ۱۴؍وری ۲۰۲۴ء کو ختم ہونے والی ہے۔ الیکشن کمیشن نے ان ریاستوں کے اکزٹ پول پر پابندی لگا دی ہے لیکن ایک سروے کے مطابق راجستھان میں کانگیرس زبردست اکثریت کے ساتھ اقتدار پو واپس آرہی ہے ۔راجستھان میں اسمبلی کی 199 نشستوں کے لیے 25 نومبر کو ووٹنگ کا عمل مکمل ہو گیا۔ ریاست میں اصل مقابلہ کانگریس اور بی جے پی لیڈران کے درمیان ہے۔ دونوں ہی پارٹیوں کے امیدواروں نے اپنی اپنی پارٹی کو مینڈیٹ ملنے کی امید ظاہر کی ہے۔ افسران کے مطابق تشدد کے چھوٹے موٹے واقعات کو چھوڑ کر حق رائے دہی کا عمل پُرامن رہا۔ آج ہوئی ووٹنگ میں 5 بجے تک 68 فیصد سے زیادہ ووٹ ڈالے جانے کی اطلاع ملی ہے۔وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت نے جودھپور میں آج ووٹ ڈالنے کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس کے خلاف کوئی اقتدار مخالف لہر نہیں ہے اور پارٹی ریاست میں پھر سے حکومت بنائے گی۔ انھوں نے کہا کہ ’’ایسا لگتا ہے کہ کوئی ’اَنڈرکرنٹ‘ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ (کانگریس) حکومت دوبارہ بنے گی۔‘‘ دوسری طرف سابق وزیر اعلیٰ وسندھرا راجے نے جھالواڑ میں صحافیوں سے بات چیت میں گہلوت کے ’انڈرکرنٹ‘ والے بیان پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں ان سے متفق ہوں۔ واقعی میں ایک انڈرکرنٹ ہے، لیکن یہ بی جے پی کے حق میں ہے۔ 3 دسمبر کو کمل (بی جے پی کا انتخابی نشان) کھلے گا۔‘‘بہرحال، ووٹنگ کے تعلق سے آج افسران نے بتایا کہ ایک گاؤں میں دیہی عوام نے ووٹ کرنے کا بائیکاٹ کیا، جبکہ کچھ حصوں میں مختلف امیدواروں کے حامیوں کے درمیان معمولی تصادم ہوا۔ سروہی ضلع کے پنڈواڑا آبو انتخابی حلقہ کے چارولی گاؤں نے ووٹنگ کا بائیکاٹ کیا۔ ایک افسر نے کہا کہ دیہی عوام کا مطالبہ ان کی گرام پنچایت کو بدلنے اور ان کے گاؤں کے پاس شاہراہ کے کنارے ایک ’سروس روڈ‘ کی تعمیر کی ہے۔ گاؤں میں 890 ووٹرس ہیں۔ افسران نے انھیں ووٹ دینے کے لیے منانے کی کوشش کی۔اس درمیان راجستھان کے پالی ضلع میں ایک سیاسی پارٹی کے ایجنٹ کی ہفتہ کے روز موت ہو گئی۔ افسران کے مطابق شانتی لال سمیرپور انتخابی حلقہ میں بوتھ نمبر 47 پر ایک سیاسی پارٹی کے ایجنٹ تھے اور وہ وہیں گر گئے۔ اودے پور کے ایک پولنگ مرکز پر 62 سالہ ووٹر ستیندر اروڑہ کا دل کا دورہ پڑنے سے موت ہو گئی۔ اروڑہ پولنگ مرکز پر گر پڑے۔ کنبہ کے رکن انھیں نزدیکی اسپتال لے گئے جہاں ڈاکٹرس نے انھیں مردہ قرار دے دیا۔کانگریس کے سینئر لیڈر راہل گاندھی نے ہفتہ کے روز تلنگانہ میں کچھ اہم مقامات پر جلسہ عام سے خطاب کیا اور برسراقتدار بی آر ایس حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس دوران راہل گاندھی نے تلنگانہ میں کاگنریس کی چھ گارنٹیوں شمار کراتے ہوئے کہا کہ کانگریس کی حکومت بننے پر پہلی کابینہ کی میٹنگ میں ہی کانگریس کی سبھی چھ گارنٹیوں کو نافذ کر دیا جائے گا۔راہل گاندھی نے ہفتہ کے روز تلنگانہ کے نظام آباد، عادل آباد اور ویمولاواڑا میں کانگریس امیدواروں کے لیے انتخابی تشہیر کی۔ اس دوران انھوں نے دعویٰ کیا کہ کانگریس زبردست اکثریت کے ساتھ ریاست میں حکومت بنانے جا رہی ہے۔ راہل گاندھی نے کہا کہ ’’تلنگانہ انتخاب میں دورالا (راجہ) اور پرجالا (عوام) کے درمیان جنگ ہے۔ عوام نے تلنگانہ کا خواب دیکھا تھا اور سوچا تھا کہ عوام کی حکومت بنے گی، لیکن وزیر اعلیٰ کے سی آر نے ایک کنبہ کی حکومت بنا دی۔ کالیشورم پروجیکٹ میں کے سی آر نے ایک لاکھ کروڑ روپے چوری کیے۔ کے سی آر اور بی آر ایس اراکین اسمبلی نے دھرنی پورٹل کے بہانے تلنگانہ کی عوام سے زمین چھیننے کا کام کیا۔ 20 لاکھ لوگوں کو نقصان پہنچایا گیا۔ اگر کے سی آر حکومت دوبارہ سے آئی تو وہ پھر سے زمین چھیننے کا کام شروع کر دے گی۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’تلنگانہ میں سب سے زیادہ پیسہ بنانے والی وزارت زمین، شراب اور ریت کے سی آر کنبہ کے ہاتھ میں ہیں۔ کے سی آر اگر بدعنوان نہیں ہوتے تو یہ تینوں وزارت ان کے کنبہ کے ہاتھ میں نہیں ہوتے۔ دلت بندھو اسکیم میں بی آر ایس کے رکن اسمبلی تین لاکھ روپے کا کمیشن لیتے ہیں۔‘‘راہل گاندھی نے وزیر اعلیٰ کے سی آر (کے. چندرشیکھر راؤ) کے اس سوال کا جواب بھی دیا جس میں انھوں نے پوچھا تھا کہ ’’کانگریس پارٹی نے آخر کیا ہی کیا ہے؟‘‘ راہل گاندھی نے کہا کہ ’’جس اسکول اور یونیورسٹی میں کے سی آر پڑھے ہیں، وہ کانگریس نے بنائے ہیں۔ کانگریس نے حیدر آباد کو آئی ٹی ستی بنایا۔ کانگریس نے ہوائی اڈے، میٹرو، سڑکیں بنائیں۔ تلنگانہ کو کانگریس نے عوام کے ساتھ مل کر بنایا۔‘‘

راہل گاندھی نے اپنے خطاب میں بی آر ایس، بی جے پی اور اے آئی ایم آئی ایم کو ایک بتاتے ہوئے کہا کہ ’’مودی جی کے ہیں دو یار، اویسی اور کے سی آر۔ لوک سبھا میں پی ایم مودی کے اشارے پر بی آر ایس اراکین پارلیمنٹ ان کی مدد کرتے ہیں۔ کے سی آر چاہتے ہیں کہ نریندر مودی ملک کے وزیر اعظم بنے رہیں اور وزیر اعظم چاہتے ہیں کہ کے سی آر تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ بنے رہیں۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’بی جے پی سے لڑنے کے سبب میرے اوپر 24 کیس ہیں، لوک سبھا رکنیت رد کر دی گئی، گھر چھین لیا گیا۔ لیکن کے سی آر پر نہ کوئی کیس ہے اور نہ سی بی آئی، نہ ای ڈی، نہ انکم ٹیکس محکمہ کوئی کارروائی کر رہا ہے۔ کانگریس کا ہدف پہلے تلنگانہ میں بی آر ایس کو ہرانے کا ہے، اور اس کے بعد مرکز میں مودی حکومت کو ہرانے کا ہے۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here