تحریر۔فخرالزمان سرحدی ہری پور
پیارے قارٸین! بقول شاعر:-
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا
گلشن زندگی میں نظم و ضبط اور فکروشعور کے زمزمے تعلیم کے زیور سے پھوٹتے ہیں۔کاٸنات کی خوبصورتی میں پہاڑ٬دریا٬ندی٬نالے٬کھیت کھلیان اور قدرتی مناظر خوبصورت کردار ادا کرتے ہیں۔کاٸنات میں مل جل کر انسانوں کا رہنا بھی تو حسین عمل ہے۔اس عمل کی خوبصورتی کے بہت اچھے اور دیرپا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔اسلام ہی ایسا عالمگیر دین ہے جو مساوات اور برابری کا درس دیتا ہے۔اخلاقیات کا چونکہ تعمیر انسانیت اور تکریم انسانیت میں لاثانی کردار ہے۔اس لیے معاشرے میں اہمیت بھی زیادہ تصور ہوتی ہے۔پر امن زندگی کی خواہش پرامن ماحول میں ہی پوری ہوتی ہے۔اس لیے اسلامی اصولوں اور دینی ضوابط پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت بھی ہے۔خاص کر انسان کی بول چال اور طرز گفتگو بہت اثر انداز ہوتی ہے۔بقول شاعر:
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
انسان بات کرے تو لب و لہجہ سے تلخ اور سخت الفاظ نہ نکالے بلکہ ایسے انداز تکلم سے بات کرے جو دل میں اتر جاۓ۔یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جو لوگ اچھے انداز سے گفتگو کرنے کا انداز اپناتے ہیں وہی دلوں پر حکومت کرتے ہیں۔ایفاۓ عہد کی پاسداری سے اچھی روایات جنم لیتی ہیں۔اس ضمن میں ایک اہم بات جس کا خیال رہے گوشہ تنہاٸی میں رہنے والوں پر توجہ دی جاۓ۔ان کی ضروریات پوری کرنے اور مساٸل حل کرنے کی سعی کی جاۓ۔نوجوان چونکہ معاشرے کا سب سے قیمتی سرمایہ اور اثاثہ ہوتے ہیں۔ان کی ہر ممکن بہتر تعلیم اور تربیت کا اہتمام ہونا چاہیے۔ماحول کو پرامن بنانے میں نوجوان نسل کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔حقوق انسانی کا ادا کرنا معاشرے میں رہنے والے ہر فرد کے ذمہ ہوتا ہے۔اس لیے ہر فرد کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے اپنا فرض ادا کرنا چاہیے۔والدین کو بھی چاہیے کہ اولاد کے ساتھ انصاف کے تقاضے پورے کیا کریں۔اولاد کو بھی چاہیے والدین کی خدمت اور ادب و احترام ملحوظ خاطر رکھیں۔معاشرتی اور سماجی براٸیوں کے خاتمہ کے لیے مل کر جدوجہد کرنی چاہیے۔تعلیمی ماحول کے فروغ سے مثبت روایات پیدا ہوتی ہیں۔یہ معاشرے کا زیور اور سماج کا جھومر ہوتی ہیں۔ہمارے شب و روز معاشرے کی فلاح اور بہتری کے لیے وقف ہونے چاہییں۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد گرامی ہے”تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور اس کی ذمہ داری کے متعلق پوچھا جاۓ گا۔امیر اپنی رعایا کا٬مرد اپنے اہل و عیال کا٬عورت اپنے شوہر اور بچوں کی ذمہ دار ہے“(بخاری و مسلم)اسلام کا عالمگیر نظام زندگی یہی تصور پیش کرتا ہے کہ ہر انسان پر دوسروں کے حقوق ہوتے ہیں۔ایک دوسرے کا خیال رکھنا٬زندگی کے آداب اور اصول مدنظر رکھنا٬رنگ اور نسل کے فرق کو ختم کرنا اور احساس محبت کو اجاگر کرنا منزل ہے۔ایک معاشرہ اور سماج اس وقت خوبصورتی کی علامت بن جاتا ہے جب اصولوں کی پاسداری کی جاۓ۔اسلام کا منشور دوسروں کے حقوق پورے کرنے کا ہے۔دوسروں کی راۓ کا احترام تعلیم سے ہی آگاہی ہوتی ہے۔معاشرے میں قیام امن کا خواب اس وقت پورا ہوتا ہے جب افراد تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوں۔یہ حقیقت مسلمہ ہے تعلیم سے آراستہ افراد انتشار اور فتنہ پردازیوں سے دور رہتے ہیں۔یہی خوبی احترام انسانیت کے تقاضے پورے کرنے میں معاونت بھی کرتی ہے۔اور سیرت و کردار کی خوبصورتی میں اضافہ بھی کرتی ہے۔معاشرہ ایک باغ اور چمن ہوتا ہے اس کی رونقیں بحال کرنے میں ہمارے مثبت کردار کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔معاشرتی ہم آہنگی سے اخوت کے پھول کھلتے ہیں۔نفرت انگیز باتوں سے گریز کرنا چاہیے۔بے چینی اور اضطراب سے معاشرے کی ساکھ بری طرح متاثر ہوتی ہے۔سماجی روابط کا مثبت استعمال معاشرے کی بقا کا ضامن ہوتا ہے۔زہر اگلنے والی گفتگو اور بیانیہ سے نہ صرف معاشرہ کا امن خراب ہوتا ہے بلکہ فسادات پیدا ہوتے ہیں۔معاشرتی آداب تو اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ غیر اسلامی اصولوں اور رسم ورواج سے دور رہنا چاہیے۔حلال اور حرام کے اصولوں سے آگاہی ہونی چاہیے۔فرقوں میں تقسیم مسلمانوں کو باہم متحد ہونا چاہیے۔تنقید براۓ اصلاح کی روایت کو برقرار رکھنا چاہیے۔یہ بات ہمیشہ یاد رہے کہ تنقید براۓ تنقید سے نفرتیں جنم لیتی ہیں اور معاشرتی امن خطرے میں پڑتا ہے۔اس لیے ایسے امور سے گریز کرنا چاہیے جن سے معاشرے کی ساکھ متاثر ہوتی ہو۔
تحریر۔فخرالزمان سرحدی
گاٶں ڈنگ٬ڈاک خانہ ریحانہ
تحصیل و ضلع ہری پور
رابطہ۔03123377085