ممبئی:اتر پردیش کے ضلع ایودھیا میں واقع تاریخی مسجد بابری جسے ۶؍دسمبر ۹۲؍کو حکومت کی سرپرستی میں جنونی کارسیکوں نے نیم فوجی دستوں کی موجودگی میں شہید کردیا تھا آج 32سال ہوگئے ہیں وہ زخم مسلمانوں کے دلوں میں پیوست ہے بالآخر ملک کی تاریخ میں لمبے عرصے تک چلنے والے اس حساس کیس پر 9نومبر 2019میں اس وقت بریک لگ گیا جب اس وقت کے معتوب چیف جسٹس گوگوئ نے آستھا کی بنیاد پر فیصلہ ہندؤں کے حق میں دے دیا جس پر مسلمانوں نے روتے بلکتے آہوں اور سسکیوں کے سائے میں جبریہ قبول تو کرلیا لیکن آج بھی بابری مسجد کی یاد میں جدو جہد جاری ہے رضا اکیڈمی نے روایت سابقہ کے مطابق 6دسمبر کواذان کاسلسلہ جاری رکھا جبکہ اس مرتبہ پولیس انتظامیہ کی جانب سے سخت دباؤ تھا لیکن رضا اکیڈمی اپنے موقف پر ڈٹی رہی اور متعینہ مقامات پر اذان دی گئی سب سے پہلے۳؍ بجکر ۳۸؍ منٹ پر کھتری مسجد بنیان روڈ پر اذان دی گئی اس کے بعد مینارہ مسجد محمد علی روڈ پر پر اذان دی گئی جہاں ایک جم غفیر نغمہ توحید کی صدائیں بلند کررہا تھا جگہ جگہ نعرہ تکبیر و رسالت بابری مسجد زندہ باد خواجہ کا ہندوستان جیسے نعرہ لگ رہے تھے اور چھوٹے چھوٹے بچے اور نوجوان پلے کارڈز بھی لئے تھے جس میں بابری مسجد کے حوالے سے پرعزم تحریر درج تھے یہاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رضا اکیڈمی کے بانی و سربراہ قائد ملت الحاج محمد سعید نوری صاحب نے کہا کہ آج سے بتیس سال قبل بابری مسجد کو جس طرح سے دہشت گردوں نے دن کے اجالے میں شہید کیا وہ ہندوستان کے ماتھے پر ایک بدنما داغ ہے لیکن افسوس عدلیہ نے اس داغ کو نہ دھوکر سیدھے طور پر ایک متنازع فیصلہ کرتے ہوئے بابری مسجد کی جگہ مندر کو دے دیا جس پر اب رام مندر تعمیر کردی گئی ہے جو سیدھے طور پر آئین اور سیکولر ازم ڈھانچہ کا قتل ہےحضرت نوری صاحب نے مزید کہا کہ مسجد اینٹ پتھر اور کنکریٹ کا نام نہیں ہے بلکہ جس جگہ ایک مرتبہ مسجد قائم ہو جاتی ہے وہ ہمیشہ مسجد ہی رہینگی جس پر مرشد کامل حضور مفتی اعظم ہند کا زبردست فتویٰ بھی موجود ہے آل انڈیا سنی جمعیۃ العلماء کے قومی نائب صدر محمد سعید نوری صاحب نے نئ نسلوں کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ ہم رہیں یا نہ رہیں ہم اپنے بچوں کو یہ بتاتے ہیں کہ بابری مسجد سے اپنی محبت قائم رکھیں جو دہشت گردوں کے ذریعے شہید کی گئی آخر میں نوری صاحب نے کہا کہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد ایک بار پھر شرپسند عناصر سرگرم عمل ہیں وہ جگہ جگہ مسجدوں کے نیچے رام کو ڈھونڈ رہے ہیں جیسے کہ سنبھل کی شاہی جامع مسجد بدایوں کی تاریخی مسجد دہلی کی جامع مسجد اور درگاہ معلیٰ اجمیر شریف یہاں پر بھی مندر کا دعویٰ پیش کیا گیا ہے جو کہ خود پارلیمنٹ کے ذریعے بنائے گئے ۱۹۹۱ءکے ایکٹ کے منافی ہے جبکہ مذکورہ ایکٹ کے مطابق جو مسجد مدرسہ درگا ہ جس حالت میں ہے اسے اسی حیثیت سے رکھی جائے لہٰذا جو بھی اس قانون کے خلاف جارہا ہے اس پر قانونی کاروائی کی جائے شہزادہ شیر ملت حضرت علامہ اعجاز احمد کشمیری نے کہا کہ بابری مسجد ہمیشہ مسجد ہی رہینگی ظالم نے بھلے ظلم وزیادتی سے ہماری مسجد چھین لی مگر وہ ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہیگی حضرت کشمیری صاحب نے مزید کہا کہ سابق چیف جسٹس گوگوئ نے آستھا کے نام پر جس طرح سے اراضی بابری مسجد کو رام مندر کے نام پر دیا ہے تاریخ اس شخص کو کبھی معاف نہیں کرے گی وہ ہمیشہ لعن و ملامت پاتا رہے گا آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ گوگوئ پر کس طرح سے قہر خداوندی ہے کہ اسے کوئی شخص پوچھنے والا نہیں وہ گمنام ہوکر رہ گیا اسی کو کہتے ہیں قدرت کا انصاف وہ راجیہ سبھا کی کرسی پاکر بھی معتوب زندگی گزار رہا ہےحضرت مولانا امان اللہ رضا نے کہا کہ رضا اکیڈمی پر ہزاروں دباؤ کے باوجود جس طرح سے اذان کا سلسلہ جاری ہے یہ بلاشبہ نئی نسل کو بابری مسجد سے وابستہ رکھنا ہے اس موقع پر حضرت علامہ محمد عباس رضوی حضرت علامہ ظفر الدین رضوی حضرت مفتی نظام الدین رضوی حضرت قاری شاداب رضا برکاتی حضرت قاری سلمان رضا حضرت مولانا علاء الدین رضوی مدرسہ انجمن کنزالایمان گوونڈی قاری رفعت رضا رضوی حافظ جنید رضا رشیدی محمد حسن رضا نوری محمد عرفان شیخ محمد مصطفی رضا امن میاں عبد القیوم رضوی چیتا کیمپ ناظم خان رضوی مزمل ہمدانی محمد عمر راجہ بھائی سیکڑوں کی تعداد میں لوگ موجود تھے ۔