آل انڈیا ریڈیو اردو سروس بحران کا شکاراور فروغ اردوکاکتاب میلہ کاجشن

0
2

جاویدجمال الدین 

ممبئی ،پونے،ناسک سمیت مہاراشٹر گیر سطح پردکانوں ،دفاتر اور مالز ودیگر تجارتی اداروں کے سائن بورڈ مراٹھی میں لگانے کے لیے ایک مہم سپریم کورٹ کے ایک فیصلہ کے بعد تیز تر ہوچکی ہے،حکومت کے ایک نوٹیفیکیشن کے بعد میونسپل انتظامیہ کے ساتھ ساتھ سیاسی فائدہ اٹھانے کی غرض سے راج ٹھاکرے کی مہاراشٹر نو نرمان سینا ( ایم این ایس) نے یکم دسمبر سے عمل آوری کے لیے کہیں کہیں تشدد کا سہارا لیاہے،گزشتہ مہینے ایم این ایس کے ورکرس نے ممبئی کے علاقے کرلا کے ایک مال میں اردو سائن بورڈ پر اعتراض کیا تھا،لیکن انہیں شاید اس بات کا علم نہیں تھا کہ ایم این۔ ایس  کے سربراہ راج ٹھاکرے کے والداردو مصنف تھے اور محمد رفیع کو مراٹھی نغمہ اردو میں لکھ کر گانے کے لیے دیتے تھے۔تقریبا دوعشرے قبل انہوں نے مجھے اردوزبان کی معلومات کے بارے میں مطلع کیا تھا بلکہ ان کے صاحبزادے راج ٹھاکرے نے بھی کسی تنازع پرالف ب کا علم ہونے کی جانکاری دی تھی،خیر اُردو سائن بورڈ پر زیادہ ہنگامہ برپا نہیں ہوا۔ہاں اس میں۔ اردو والوں کی بے حسی نظرآتی،کل۔ہی میں نے میری مسلم اکثریتی علاہ کی ایک نئی مٹھائی کی دکان کے مالک سے درخواست کی کہ وہ اردو میں بھی سائن بورڈ نصب کریں۔ اور انہوں نے رضامندی ظاہر کی جبکہ قریبی درگاہ کے عرس کے  موقع پر”عرس مبارک رومن میں لگایاگیا ہے۔”

ملک میں بہت کم لوگ اس بات سے واقف ہوں گے کہ مہاراشٹر ملک کی واحد ریاست ہے،جہاں اُردو ذریعہ تعلیم رائج ہے اور کئی لاکھ بچے ہزاروں کی تعداد اسکولوں میں زیر تعلیم ہیں،خود میونسپل کارپوریشن ممبئی عظمیٰ کے پرائمری ،اپرپرائمری اور ہائر سیکنڈری اسکولوں میں کئی لاکھ بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں اور ہندی کے بعداردوزبان میں ذریعہ تعلیم  کے بچے اردوطلباء  دوسرے نمبرپرہیں،غیرسرکاری طورپر بی ایم سی کے اسکولوں میں اردو میڈیم کے  بچوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔جبکہ مہاراشٹر بھر میں ساڑھے چار ہزار اردو میڈیم اسکول ہیں اورمشہور ادارہ  انجمن اسلام نے اُردو ذریعہ تعلیم کو زندہ رکھاہے،صدرڈاکٹر ظہیرقاضی اس کے لیے پیش پیش رہے ہیں۔انجمن خیرالاسلام نے بھی اردو میڈیم کو ترجیح دی ہے۔البتہ بہار،تلنگانہ، آندھراپردیش کو چھوڑ کر دہلی،اترپردیش اور بہار میں اس ہندوستانی زبان کا کوئی پُر سان حال نہیں ہے ۔

حال میں انٹرنیٹ پر ہندوستان یا بھارت میں کروڑوں افراد کی بولی اور استعمال میں آنے  والی زبانوں کی فہرست میں اُردو زبان کو دیکھ پر میں خوشی سے پھلے نہیں سما رہا تھا کہ یہ خبر ہاتھ لگی اور میری خوشی دوبالا ہوگئی کہ کونسل برائے فروغ اُردو نے آئندہ سال ۶ جنوری تا۱۴ جنوری ۲۰۲۴ کو ممبئی میں ۲۶ واں قومی اُردو کتابی میلہ منعقد کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔اس کے ساتھ ہی اہم سماجی ،تعلیمی اور ثقافتی تقریبات کا انعقاد بھی کیا جائے گااور ملک اور بیرون ملک سے ہزاروں اردووالے شرکت کریں گے۔شمال وسطی ممبئی کے باندرہ – کرلا کمپلیکس میں ایک جشن کا ماحول رہیگا ،لیکن یہ خوشی تقریباً اُس وقت کافور ہوگئی،جب انگریزی اخبار کی ایک مفصّل رپورٹ نے میرے ہوش اڑادیئے۔جو آل انڈیا ریڈیو (اے آئی آر) یعنی آکاش وانی کی اردو خدمات کے متعلق تھی۔خرم حبیب کی رپورٹ کے مطابق 

آل انڈیا ریڈیو (اے آئی آر) اردو سروس، جو کبھی بیرونی خدمات کے ڈویژن میں سب سے زیادہ مصروف اور پسندیدہ نشریاتی سروس تھی وقت کے لحاظ سے، اس کے بہت سے پروگراموں کو روکے جانے اور ہندی پروگراموں کو جگہ دے کر فراموش کیے جانے کے نتیجے میں بحران کا شکار ہوگئی ہے۔کئی پروگرام کبھی کبھی ایک دن تاخیر سے نشر ہوتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں انہیں  باسی کہہ سکتے ہیں۔ان کی اطلاع کے مطابق مشہور اور مقبول ترین پروگرام جیسے کہ نئی نسل، نئی روشن (جوانی سے متعلق)، بزم خواتین (خواتین پر)، حفظ صحت، فلمی دنیا، سائنس نامہ، کھیل کھلاڑی لگ بھگ بند کر دیئے گئے ہیں اور ان سبھی کی جگہ مارکیٹ منتر نے لے لی ہے، جو ایک دن پہلے ہی ہندی میں نیوز سروسز ڈویژن کے ذریعے نشر ہو چکا ہوتاہے۔

جبکہ اردو سروس کے مقبول ترین پروگراموں  میں شامل ہیلو ڈاکٹر اور گلہائے رنگ، جیسے لوک گیت کے پروگرام  کی جگہ پرکرما نے لے لی ہے۔ دیگر پروگراموں جیسے آئینہ (ادبی)، مشاعرہ، انداز نظر (موجودہ امور) کی جگہ بھی غیر اردو پروگرام لے چکے ہیں۔

 تایا جاتا ہے کہ گزشتہ اپریل 2023 کے بعد سے عملے نےاردو سروس کا ایک بھی نیا پروگرام ریکارڈ نہیں کیا، ساڑھے نو گھنٹے کی سروس کو بغیر کسی پروگرام کے چھوڑ دیا، سوائے خبروں کے، جس زبان کے لیے یہ قائم کیا گیا تھا۔اردو شعبہ کے عملے کو جو چیز پریشان کر رہی ہے وہ ہندی پروگراموں کی تاخیر سے ٹرانسمیشن ہے جس کی وجہ سے وہ غیر متعلق ہیں۔

جبکہ  مارکیٹ منتر، جو شیئر مارکیٹ اور کاروبار کی خبریں دیتا ہے شام کو نیوز سروسز ڈویژن کے ذریعے نشر کیا جاتا ہے ،لیکن اگلے دن صبح 10.30 بجے اردو سروس کے ذریعے اسے دہرایا جاتا ہے۔  اس کا مطلب ہے کہ اردو سروس ایک دن پہلے مارکیٹ بند ہونے کی خبریں دیتی ہے،حالانکہ ٹریڈنگ کا نیا دن شروع ہو جاتا ہے۔پرکرما، جو سامعین کو تقریبات اور تہواروں کی اہمیت سے آگاہ کرتا ہے، ایک اور پروگرام ہے جو ایک دن کی تاخیر سے نشر ہوتا ہے۔

“ایسی مثالیں موجود ہیں جب تہواروں کے منائے جانے کے ایک دن بعد خبریں اور اس کی اہمیت کو منتقل کرنا پڑا ہے۔  مثال کے طور پر، قومی اتحاد کا دن 31 اکتوبر کو منایا جاتا ہے اور اسی دن پرکرما میں اس کی اہمیت کو بیان کیا گیا تھا۔  تاہم یکم نومبر کو اردو سروس کے ذریعے پرکرما پروگرام کو دہرایا گیا، کاروا چوتھ جیسے واقعات کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا جہاں پروگرام نے خواتین کو اس کی اہمیت بتائی۔  تاہم، فیسٹیول ختم ہونے کے ایک دن بعد اردو سروس کے ذریعے اسے دہرایا گیا،‘‘ ریڈیوسے منسلک ایک اہلکار نے اس بات پر افسوس کااظہارکیا۔یہ تبدیلی وزارت کی جانب سے کسی سرکاری اطلاع یا حکم کے بغیر کی گئی ہے۔

اے آئی آر کے ایک ریٹائرڈ ملازم نے کہاہے کہ ’’اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر محکمہ کو بحران کا سامنا ہے، ایکسٹرنل سروسز ڈویژن (بیرونی ملک)میں ایک بار 20 سے زائد غیر ملکی زبانوں میں ٹرانسمیشن شامل تھیں،لیکن فنڈز کی کمی کی وجہ سے یہ تعداد 11 رہ گئی ہے۔  روسی اور سنہالا جیسی زبانوں میں سروس بند کر دی گئی ہیں۔”

ایک زمانے میں اردو سروس سب سے زیادہ مقبول تھی اور 24 گھنٹے کی سروس تھی، لیکن کووڈ کے بعد نصف سے زیادہ کم کر دی گئی۔  اب اس کی ترسیل صبح میں تین گھنٹے 45 منٹ (9.30 بجے سے 1.15 بجے تک)، دو گھنٹے دوپہر میں (3 بجے سے 5 بجے تک) اور شام (9.15 سے 1 بجے) میں تین گھنٹے 45 منٹ تک ہوتی ہے۔اڈ مالی سال (2023-2024) آل انڈیا ریڈیو اردو سروس کا بجٹ تقریباً 6 کروڑ روپے تھا لیکن گزشتہ سال  ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کیا گیا۔  یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آئندہ سال مارچ کے بعد بجٹ میں کمی کر دی جائے گی، کیونکہ حکام کو پتہ چلا ہے کہ پروگراموں پر کوئی رقم خرچ نہیں کی گئی۔

 انگریزی اخبار پیٹریاٹ نے ڈی جی اے آئی آر وسودھا گپتا سے رابطہ کیا، جنہوں نے یہ کہتے ہوئے جواب دیا، “کوڈ میں قلیل کیے گئے پروگرامز اور سروسیز  کی ادارہ بحالی کے موڈ میں ہے، جو ۔” ابھی کوبھی نشریاتی سروس موجود ہے۔  تاہم، ان میں سے اکثر کا وقت ایک سے دو گھنٹے تک محدود ہے۔لاک ڈاؤن ختم ہوچکاہے اور زندگی معمول پر آگئی،لیکن یہ بیان صرف پردہ پوشی ہے اور حقیقت وہی ہے جو اوپر بیان کی جاچکی ہے۔یعنی آل انڈیا ریڈیو پر اُردو کا”قتل “کیے جانے کی سازش رچی جاچکی ہے۔اور کونسل برائے فروغ اُردو آل انڈیا ریڈیو کے ذمہ داروں سے کوئی رابطہ کرنے کے بجائے دیگر امور میں سرگرم ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here