ممبئی:’غدار دن‘ کا انعقاد نہ صرف راشٹروادی کے ذریعے بلکہ ریاست کے گھر گھر میں کیا جائے گا۔ مہاراشٹر میں یہی ایک ایسا واقعہ ہوا ہے جو لوگوں کے گھروں تک پہنچا ہے۔ اگر ’پچاس‘ کہاجائے تو ایک چھوٹا بچا بھی ’کھوکے‘ کہتا ہے۔ کل کا دن پچاس کھوکوں کا دن ہے، فرار ہونے کا دن ہے، غداری کرنے کا دن ہے، اس لیے اس ہر گھر میں یہ الگ الگ طریقوں سے منایا جائے گا۔ یہ باتیں این سی پی کے جنرل سکریٹری وسابق وزیر جیتندراوہاڈ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہیں۔ جتیندر اوہاڈ نے یہ بھی کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ ادھو ٹھاکرے کو ہمدردی مل رہی ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلے میں بھی ادھو ٹھاکرے کا خصوصی ذکر ہے،اس لیے ظاہر ہے کہ ادھو ٹھاکرے ہی مہاوکاس اگھاڑی کا اہم چہرہ رہنے والے ہیں۔اوہاڈ نے کہا کہ یہ اہم نہیں ہے کہ کون کہاں جارہا ہے بلکہ اہم یہ ہے کہ عام شیوسینک کس کے ساتھ ہے۔ 1992 میں بھی شیوسینا اسی طرح تقسیم ہوئی تھی اوراس وقت بھی ایسے ہی حالات پیدا ہوگئے تھے۔ لیکن اس کے بعد ہوا یہ کہ شیوسینا سے بغاوت کرنے والے ایک بھی مہاراشٹر کی سیاست کی سطح پر نظر نہیں آئے۔جیتندراوہاڈ نے کہا کہ آج کل ریاست میں سروے کا کھیل چل رہا ہے۔ ہرروز ایک نیا سروے آرہا ہے جس میں سروے کروانے والا ۹۹فیصد لوگوں کو پسندیدہ بن جاتا ہے۔ اس طرح میں بھی کہہ سکتا ہوں کہ ریاست کے ۹۹ فیصد لوگ چاہتے ہیں کہ میں وزیراعلیٰ بنوں۔ سچائی یہ ہے کہ یہ سب ایک کھیل ہے۔ اگر سروے میں ایکناتھ شندے کو 26فیصد اور فڈنویس کو 23فیصد لوگ پسند کررہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسمبلی کی 288سیٹو.ں میں شندے وفڈنویس کو 285سیٹیں جائیں گی۔ یعنی کہ دیگر پارٹیوں کو محض تین سیٹیں ہی ملیں گی۔بی جے پی کے ریاستی صدر چندرشیکھر باون کولے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ باون کولے کو بغاوت کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا۔ جنہیں ایک سادی سیٹ تک نہیں ملی، انہیں کوئی اس قدر خفیہ بات تھوڑی نہ بتائے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ باون کولے میں کیا اتنی ذہنی استطاعت ہے کہ وہ بتاسکیں کہ شردپوار صاحب کے ذہن میں کیا ہے؟ شردپوار کے ذہن میں کیا چل رہا ہوتا ہے یہ ان کے گھروالے بھی نہیں بتاسکتے تو پھر باون کولے کیسے معلوم ہوسکتا ہے؟جیتندراوہاڈ نے کہا کہ 1977 میں اندرا گاندھی کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو 77 سے 80 میں تقریباً سبھی نے اندرا گاندھی کو چھوڑ دیا لیکن اس دوران بھی انہوں نے واشم سے ایک کشمیری شخص غلام نبی آزادکو منتخب کرایا۔ اس لیے ایم ایل ایزکے چھوڑکر چلے جانے سے کچھ نہیں ہوتا ہے، بالآخر عوام فیصلہ کرتے ہیں کہ کیا کرنا ہے، ایم ایل اے کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہوتا۔جو لوگ جارہے ہیں وہ ٹھیک ہی ہے کیونکہ اس کے بعد نئے نوجوانوں کو موقع مل رہا ہے جو ایک طرح سے بہت بہتر ہے۔فلم’آدی پورش‘ پر تنقید کرتے ہوئے اوہاڈ نے کہا کہ ’میری بھی جلے گی، تیری بھی جلے گی توتیرے باپ کی بھی جلے گی جیسے ڈائیلاگ اگر ہندوتووادی منظور کرتے ہیں تو بھلا اعتراض کس بات کا ہے؟ لیکن مجھ جیسے رام بھکت کو اس طرح کے ڈائیلاگ سے بہت تکلیف پہنچی ہے۔ ہم ’جئے سیارام‘ کہنے والے لوگ ہیں، ہم رام کو اپنے دل میں رکھتے ہیں، اس رام کوآپ لوگوں نے جیکٹ پہناکر راستے کا ٹپوری گینگ بناڈالا ہے۔ انہوں نے کہا کہ منوج منتشر نامی یہ رائٹر خود کو ہندوتواوادی کہتا ہے وہ خود رام وہنومان کی توہین کررہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آدی پوروش میں دکھائے گیے رام وہنومان کیا ہندوتواوادیوں کومنظور ہیں؟