کتاب میلہ میں نمازی سوچالیہ کے پانی سے گندگی میں بیٹھ کر وضو کرتے ہویے
سوال در سوال:جواب در جواب
پروفیسر سعید خان کا خط سید ارشادالحسن کے نام
جو سوشیل میڈیا پر وائر کیا گیا
السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ ‘
جناب ارشاد الحسن صاحب ‘
آپ کی شکایتیں بجا ہیں ۔ لیکن ان میں سے زیادہ تر کا ازالہ کیا جا چکا ہے ۔
اب 3 عدد موبائل بیت الخلاء ہیں جن کی صفائی کی جاتی ہے جن میں پانی کا بھی معقول انتظام ہے ۔ رہی بات گندگی کی تو اردو کتاب میلہ میں آنے والے اردو کے شیدائیوں کو اپنی سماجی و اخلاقی ذمہ داری نبھاتے ہوئے کچرا کوڑے دان میں ڈالنا چاہیے ۔
دوسری بات اس تاریخی میلے میں آنے کے تین اہم مقاصد بنا لیں ۔
۱۔ کتابوں کی خریداری
۲۔ ادبی و ثقافتی تقریبات میں شرکت
۳۔ جس طرح ہم پکنک پر تیاری سے جاتے ہیں اسی طرح آپ کے مشورے کے مطابق کچھ کھانے پینے کی اشیاء ‘ پینے کا پانی وغیرہ ساتھ میں لائیں اور کوڑا کرکٹ ‘ کوڑے دان میں ہی ڈالیں ۔
میلے کی انتظامیہ کمیٹی کے اہم رکن اور ماہنامہ گل بوٹے کے مدیرِ اعلٰی جناب فاروق سید سے بات کرنے پر پتہ چلا ہیکہ قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان نے اس میلے کے انتظامات کے لئے ٹینڈرز طلب کئے تھے تو قرعہ اندور کی ایک کمپنی کے نام کھلا ۔ اندور سے ہونے کی وجہ سے مذکورہ کمپنی کو لوکل مزدور ملنے میں دشواری پیش آرہی تھی جس پر اب قابو پالیا گیا ہے ۔
*آخری اور سب سے اہم بات اور مجھے یقین ہیکہ آپ بھی مجھ سے متفق ہونگے کہ ہم دوسری کئی غیر اہم چیزوں کے لئے صعوبتیں جھیلتے ہیں ۔ یہ تو آپ کی اور ہم سب کی پیاری زبان اردو کا معاملہ ہے تو ہمیں چاہیے کہ ان کمیوں کو نظر انداز کرکے میلے کو اور زیادہ کامیاب اور مؤثر بنانے میں اپنی توانائی اور وقت صرف کریں*
خاکسار
پروفیسر سعید خان
اس کا جواب ملاحظہ فرمائیں
وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ
آپ نے درست فرمایا
لیکن میں آپ کی باتوں سے متفق نہیں
میں نے کل بھی تقریباً وہی حال دیکھا. صفائی تھوڑی بہت نظر آئی
لیکن مکمل نہیں
آپ نے جن بیت الخلاء (شوچالیہ) کا ذکر کیا ہے وہاں پر ایک میں گیا اس میں پانی نہیں تھا اور دوسرے میں میرے ساتھی فوٹو گرافر محمد علی میسانی گیے تھے وہ بھی واپس آگئے اس میں بھی پانی ندارد تھا
تیسرے شوچالیہ میں کچھ نمازی حضرات وضو کرنے کیلئے لائن میں کھڑے تھے اندازہ لگائیے وہاں رہنے والوں کا کس مصیبت سے رہ رہے ہیں. میں سمجھتا ہوں جو ذمہ دار حضرات ہیں اگر وہ نمازی ہیں تو شاید اس طرف بھی دھیان دیتے. کھاناپانی چائے کا اسٹال تک انہوں نے اپنے ایک قریبی فوٹو گرافر کو دلوایا ہے جس کا کیٹرنگ سے کیا تعلق (یہ ٹینڈر کب کہاں اور کیسے ہوا؟)
اس سے قبل 2012 میں بھی ایسا ہوتا تھا جس کے بارے میں نے کئی قسطوں میں (ہفت روزہ جسارت ممبئی میں) شایع بھی کیا اور اس کی تحریری شکایت اس وقت کے ایچ آر ڈی منسٹر ای احمد اور این سی پی یو ایل سے بھی کی گئی تھی اور اسی کو مسلم لیگ والوں نے بھی فارورڈ کیا تھا جس کی ٹحقیقات بھی شروع ہو گئی تھی لیکن افسوس صد افسوس – – – – – انکوائری مکمل ہونے سے قبل ہی وہ اللہ کو پیارے ہو گئے اور وہ ادھوری رہ گئی ورنہ شاید ادبی مافیا کے سب لوگ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوتے! آج تک وہ سارے ثبوت محفوظ ہیں. ضرورت پڑی تو ان شا اللہ ان کو بھی استعمال کیا جائے گا. وہی ٹولہ دوبارہ پھر تقریباً وہی حرکتیں کر رہا ہے
تمام رپورٹس شایع کرنے اور شکایت کے بعد اس وقت مجھے کئی پولیس افسران تک سے فون کروانے گئے تھے. کئی لیڈران ایم ایل اے وغیرہ سے بھی فون کروانے گئے. جن میں محمد سہیل لوکھنڈوالا بھی شامل ہیں اور خود امتیاز خلیل نے بھی فون کیا تھا جس کی ریکارڈنگ بھی آج تک محفوظ ہے. اور کچھ آفر بھی کیا گیا تھا جن میں خود NCPUL کے اس وقت کے بھی لوگ شامل تھے. ضرورت پڑی تو وہ سب بھی پیش کیا جاسکتا ہے.
جو خادمان اردو روزآنہ ٣ پروگراموں میں شرکت کرکے ہزاروں روپیہ نذرانہ ۔۔۔ایک دن میں تقریبا ایک لاکھ روپیے لے رہے ہیں وہ اپنا نذرانہ بھول جاییں ۔ لوٹا دیں ۔۔۔۔۔۔وہ رقم بنیادی سہولیات اور ٹرانسپورٹ پر خرچ کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عوام اور خاص طور پر بچے ۔۔گھر سے ڈھایی ۔تین سو روپے فی کس کتاب خریدنے پر خرچ کریں ۔۔۔۔
اور خادمان اردو پروگراممیںشریک ہو کر فی کس کماز کم ۔۔۔۔۔ڈھایی ہزار روپوں کا چیک حاصل کریں۔۔۔۔۔۔
کچھ ایک کو ۔۔۔کئی کئی پروگرام ۔۔۔یعنی کئی کئی چیک ؟
تین کروڑ کا بجٹ کہاں کہاں ؟ کیسے کیسے استعمال ہو رہا ہے ؟
اردو عوامکو یہ جاننے کاپوراحق حاصل ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔قانونی اور دستوری حق حاصل ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر کوئی یہ حق نہ دے تو آرٹی آئ( RTI) کے ذریعہ بھی حاصل کیا جا سکتا ہے. اس کے بعد قانونی کارروائی بھی کی جاسکتی ہے!
فقط :والسلام
سید ارشادالحسن
پروفیسر سعید خان کا جواب