ممبئی: ممتاز سینئر صحافی سید محمد عالم نقوی کے انتقال پر اُردو جرنلسٹ ایسوسی ایشن کااظہارتعزیت کیا ہے اور اس بات کااعلان کیا ہے کہ ممبئی میں جلدہی ایک تعزیتی جلسہ کاانعقاد کیاجائے گا۔اس کی اطلاع ایسوسی ایشن کے نائب صدر اور ترجمان جاوید جمال الدین نے دی ہے۔واضح رہے کہ عالم نقوی کا گزشتہ ہفتے شب جمعہ دہلی میں انتقال ہوااور لکھنؤ میں تدفین ہوئی۔دریں اثناء بزرگ شاعر وصحافی ندیم صدیقی نے ایک تعزیتی بیان میں کہاہے کہ عالم نقوی اپنے کردار میں مخبر صادق کے وارث تھے،ایک مسلمان کو جیسا صحافی ہونا چاہیے، عالم صاحب ایسے صحافی تھے، جن کے دل میں دردمندی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، پیچ تو یہ ہے کہ صحافت ایک کار پیمبری ہے اور قدرت کی طرف سے اس کو یہ کام تفویض کیا جاتا ہے جو انسانیت ہی نہیں جملہ حقوق کے لیے مخلص ہو، عالم صاحب صحافی نہ ہوتے تو وہ ایک معلم ہوتے۔ معلم اور صحافت کا آپس میں بظاہر کوئی تعلق نظر نہیں آتا مگر معلم کے لیے بھی باخبر ہونا شرط نہ بھی سہی مگر اس کی صفات میں یہ عصر ضرور ہونا چاہیے۔ عالم صاحب اس دور میں شفاف صحافت کا کردار تھے جب صحافی جیسے لفظ سے آج غائب ہو گیا ہے، بزرگوں نے اس شعبے میں اپنے علم و کردار کے جیسے صحافتی نمونے یادگار چھوڑے ہیں، عالم نقومی بجا طور پر اسی علم و عمل کے نیچے وارث تھے ۔ ہمارے بیچ سے ان کا رخصت ہونا ، درد مندی اور انسان دوستی کا نا قابل تلافی نقصان ہے۔ اے کاش ہم ان کے علم و عمل کے بچے وارث ثابت ہوتے ، دیکھا جائے تو یہ زہر انقصان ہے۔ فی زمانہ ہم صحافیوں میں ان کے جیسا قرآن کریم سے تعلق رکھنے والا شاید ہی کوئی صحافی ہو ، قرآن خود ایک خبر ہی ہے اور یہ صحیفہ کہانی جس پر نازل ہوا، وہ ہمارا نہیں تمام انسانیت کا مخیر اعظم کہا گیا اور عالم نقوی اپنے کردار میں اسی مخیر صادق کے وارث تھے ، یہ وراثت اپنے آپ میں تقدس کی حامل ہے، اس تقدیم کا حق ادا کرنا ہر صحافی پر واجب ہے، عالم نقوی سے ہماری رفاقت کی عمر کوئی میں برس سے زاید مدت پر محیط ہے، ہم نے عالم نقوی سے زیادہ پڑھے لکھے صحافیوں کو ضرور دیکھا مگر عالم نقوی نے جس طرح اپنے علم سے صحافت کو جو تقویت دینے کی کوشش کی ایسی مثال کم از کم ہم جیسے کم نظروں کو کسی اور کے ہاں نہیں ملی ، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان کی صحافت پیشہ وری نہیں تھی اور ویسے بھی اُردو زبان میں پیشہ وری غیر مستحسن عمل ہے۔روزنامہ ہندوستان کے مالک ومدیر سرفراز آرزو نے صحفہ اول پر تعزیتی پیغام شائع کیا اور اُردو صحافت کا ایک بڑا نقصان بتایاہے بلکہ عالم۔نقوی کے انتقال سے وہ نجی طورپر غم زدہ ہیں۔ممبئی اُردو نیوز کے مدیر شکیل رشید نے اسے اپنا ذاتی نقصان قرار دیتے ہوئے کہ انہوں نے صحافت کو ایک نئی سمت دی بلکہ ان کی باتوں اور تحریروں سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا تھا۔مطالعہ کا شوق ہمارا مشترکہ شوق رہا اور ہمیشہ کتابوں اور مصنف ہر گفتگو ہوتی تھی۔روزنامہ انقلاب اور اُردو ٹائمز میں ساتھ کام کرنے کا موقعہ ملا ہے اور بہت سیکھا بھی گیا۔صحافی جاوید جمال الدین نے کہاکہ 1993 میں لاتور ز لزلہ کے بعد ان کی سفارش پر انہیں روانہ کیا گیا اور پھر ممبئی فسادات کی تحقیقات کے لیے تشکیل دیئے گئے سری کرشنا کمیشن کی کارروائی کے کوریج کے لیے ان کی سفارش پر عمل کیا گیاہے انہوں نے کہاکہ” 6،دسمبر1992 کو بابری مسجد کی شہادت پر وہ غمگین ضرور نظرآئے،لیکن قلم کو کہیں جھکنے نہیں دیا۔اور صحافت میں سمجھوتہ نہیں کیاہم نے فسادات کے دوران کئی راتیں دیگر عملے کے ساتھ دفتر میں گزاریں ،لیکن ان کے چہرے پر کبھی ڈر وخوف نہیں دیکھا۔وہ ایک نڈر وبے باک صحافی تھے ،بقول معصوم مرادآبادی وہ صحیح معنوں میں اسلامی صحافی تھے۔”صحافی دانش ریاض نے بھی جذباتی انداز میں ان۔کے اور اہل خانہ کے ساتھ تعلقات پر طویل مضمون سوشل میڈیا پر تحریر کیا ہے۔روزنامہ تعمیربیڑ کے مدیر قاضی مخدوم نے بھی اظہار تعزیت کیا اور کہاکہ ان کے ساتھ روزنامہ انقلاب میں کام کرنے کا الگ ہی تجربہ رہا اور یہ سب یادوں کا ایک حصہ ہے جبکہ زندگی کا اہم تجربہ بھی رہا۔